حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
لیلة الهریر کے بارے میں مطلب

لیلة الهریر کے بارے میں مطلب

*********************************************

11صفر؛جنگ صفین میں ليلة الهرير (سنہ ۳۸ ہجری)

*********************************************

جنگ صفين میں حکمیت

جنگ «صفين» شروع ہوئی اور جنگ صفين کا واقعہ بہت طويل ہے اور اس جنگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور معاویہ کے لشکر سے بہت سے افراد قتل ہوئے، ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔

مسعودى نے کہا ہے کہ پیادوں اور اتباع کے علاوہ ایک لاکھ پچاس ہزار سوار قتل ہوئے اور ان کے ساتھ تین لاکھ افراد قتل ہوئے۔

اس جنگ میں اميرالمؤمنين‏ عليه السلام کے لشکر میں سے عمّارياسر، هاشم مرقال، خزيمة بن ثابت، صفوان، سعد، پسران حذيفة بن اليمان اور اشتر نخعی کے بھائی عبداللَّه بن حارث قتل‏ ہوئے اور عماویہ کی طرف سے ذوالكلاع ، عبيداللَّه بن عمر اور حوشب ذى ظليم قتل ہوئے.

اس جنگ میں ليلة الهرير واقع ہوئی اور یہ شب جمعه تھی اور اس رات جنگ میں اتنی شدت آ گئی کہ لوگ ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتے تھے اور جنگی آلات ختم ہو گئے تھے اور آخر میں دونوں لشکر ایک دوسرے پر حملہ کرتے اور ایک دوسرے کو مکوں اور تھپڑوں سے مارتے تھے۔

اميرالمؤمنين ‏عليه السلام پانچ سو تئیس افراد کو واصل جہنم کیا، آپ کسی بھی شخص کو قتل کرنے کے بعد تکبیر کہتے ۔اس رات اور اگلے دن تک یہ جنگ جاری رہی اور ہوا میں گرد و غبار کا اس قدر غلبہ تھا کہ نماز کا وقت بھی معلوم نہیں ہو سکتا تھا۔

اشتر نے نمایاں جنگ کی  اور جمعہ کے دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا لشکر فتح کے قریب تھا کہ اہل شام کے سربراہوں نے فریاد کی کہ تمہیں خدا کی واسطہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کا خیال کریں کہ سب بیوہ و یتیم ہو جائیں گی۔

معاويه نے عمرو عاص سے کہا کہ اپنے تمام مکر و حیلہ کو  بروئے کار لاؤ کہ ہم ہلاک ہو گئے ہیں اور پھر اسے مصر کی حکومت کی نوید سنائی۔ عمرو عاص جو کہ ایک مکار اور حیلہ گر انسان تھا، اس نے لشکر کو پکارا اور کہا! ایّھا الناس! جس کے پاس بھی قرآن ہو وہ اسے نیزوں پر بلند کر دے۔ تقریباً پانچ سو قرآن نیزوں پر بلند کئے گئے اور معاویہ کے لکشر نے بلند آواز سے فریاد کی کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا کی کتاب حاکم ہو۔

لشكر اميرالمؤمنين‏ عليه السلام نے جب یہ مکاری دیکھی تو ان میں سے بہت سے افراد دھوکے میں آ گئے اور آنحضرت سے کہا: یا علی! معاویہ حق بات کہہ رہا ہے، آپ کو کتاب خدا کی طرف دعوت دے رہا ہے ، آپ اس کو مثبت جواب دیں۔

اس کام میں سب سے زیادہ اشعث بن قيس سرگرم تھا.

اميرالمؤمنين ‏عليه السلام نے فرمایا: یہ صرف مکر و فریب ہے۔

کہا:یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمیں قرآن کی طرف بلایا جائے اور ہم اجابت نہ کریں۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

واى ہو تم پر؛ میں ان سے اس لئے جنگ کر رہا ہوں کہ یہ قرآن کے حکم کے مطابق متدین ہو جائیں،انہوں نے نافرمانی کی، جاؤ اور اپنے دشمنوں سے جنگ کرو اور ان کے دھوکے میں نہ آؤ۔بیشک معاويه، عمروعاص، ابن معيط، حبيب بن سلمه اور بنى النابغة اصحاب دين و قرآن نہیں ہیں، میں ان لوگوں کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔

امیر المؤمنین علیہ السلام نے ایسی بہت سی باتیں کی اور ان بدبخت لوگوں کو نصیحت فرمائی لیکن انہوں نے اسے قبول نہ کیا اور بالآخر اشعث اور اس کے ساتھیوں نے امیر المؤمنین علیہ السلام کو خبردار کیا کہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو ہم وہی کریں گے جو لوگوں نے عثمان کے ساتھ کیا یعنی تمہیں خواری سے قتل کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کسی کو بھیجو اور اشتر کو جنگ سے منع کرو۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے کسی کو اشتر کے پاس بھیجا کہ جنگ سے دستبردار ہو جاؤ۔

اشتر نے پیغام بھیجا کہ یہ وقت مناسب نہیں ہے کہ میں جنگ سے دستبردار ہو جاؤں کیونکہ اس وقت نسیم نصرت چل رہی ہے اور شام کا لشکر شکست کے دھانے پر ہے۔ قاصد پھر پیغام لے کر اشتر کے پاس گیا اور کہا:کیا تم یہ چاہتے ہو کہ فتح کے بعد امیر المؤمنین علیہ السلام کو قتل ہوا  پاؤ یا دشمن کے پاس گرفتار دیکھو۔

اشترغصہ سے جنگ سے دستبردار ہو گئے، اشتر اور لوگوں کے درمیان سخت کلمات کا تبادلہ ہوا اور آخر میں اميرالمؤمنين ‏عليه السلام نے فرمایا:

إنّي كنت أمس أميراً، فأصبحت اليوم مأموراً.

میں آج سے پہلے امیر تھا لیکن آج مأمور ہوں اور کوئی میرے امر کی اطاعت نہیں کر رہا۔

پس اشعث معاويه کے پاس گیا اور کہا:تمہارا کیا ارادہ ہے؟

معاويه نے کہا: ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اور تم کتاب خدا کی پیروی کریں۔ایک شخص کو تم منتخب کرو اور ایک شخص کا ہم انتخاب کرتے ہیں اور ان سے عہد و میثاق لیتے ہیں کہ قرآن پر عمل کریں اور کسی ایک شخص کا انتخاب کریں جو امت کے امور کی ذمہ داریاں سنبھالے۔ اشعث نے اس بات کو پسند کیا۔

پس اهل شام نے تحکیم کے لئے عمروعاص کا انتخاب كیا۔ اشعث اور خوارج کے نظرئے کے مالک افراد نے ابوموسیٰ اشعری کا انتخاب کیا۔

اميرالمؤمنين‏ عليه السلام نے فرمایا تم لوگوں نے پہلے میری نافرمانی کی ہے۔ اب میری نافرمانی نہ کرو۔ میں ابو موسیٰ کے لئے یہ کام پسند نہیں کرتا۔ اشعث اور اس کے ساتھیوں نے کہ: ہم اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں چاہتے۔

حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:وہ موثّق نہیں ہے، وہ مجھ سے الگ ہوا اور میرے خلاف گیا اور اس نے فلاں فلاں کام انجام دیئے۔عبد اللہ بن عباس کا انتخاب کرو لیکن اشعث اور اس کے ساتھیوں نے قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا: اگر ابن عباس کا انتخاب نہیں کرتے تو پھر اشتر کا منتخب کرو۔ انہوں نے کہا: ہم ابوموسیٰ کے علاوہ کسی اور کا انتخاب نہیں کریں گے۔ آخر کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے اس میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا اور فرمایا: جو کرنا چاہتے ہو کرو۔

پس انہوں نے کسی کو ابوموسىٰ کے پاس بھیجا اور اسے تحکیم کے لئے طلب کیا اور سنہ ۳۸ ہجری میں «دومة الجندل» میں حکمیت کا واقعہ پیش آیا نیز اس واقعہ میں عمرو عاص کا ابوموسیٰ کو دھوکا دینے اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے خلع کرکے معاویہ کو نصب کرنے کا واقعہ بہت مشہور ہے اور یہاں اسے ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے.(242)


242) وقايع الأيّام: 175.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 867
آج کے وزٹر : 7199
کل کے وزٹر : 19024
تمام وزٹر کی تعداد : 127563142
تمام وزٹر کی تعداد : 88853589