حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حجّاج کا دیر کے بوڑھے شخص سے سامنا اور مستقبل سے آگاہی۔

حجّاج کا دیر کے بوڑھے شخص سے سامنا اور مستقبل سے آگاہی۔

************************************************

12صفر؛ خراسان میں حجّاج ثقفی کے عامل يزيد بن مهلب کی ہلاکت (سنہ ۱۰۲ ہجری)

************************************************

   مفضّل بن محمّد کہتے ہیں: حجّاج، عبدالملك بن مروان کے پاس گیا اورواپسی کے موقع پر جب وہ دير کے مقام پر پہنچے اور اس سے کہا:دیر میں اہل کتب میں سے  ایک بوڑھا دانشور ہے۔

کہتے ہیں: حجّاج نے اس بوڑھے دانشور کو اپنے پاس طلب کیا اور کہا: اے بوڑھے! کیا تمہیں اپنی کتابوں میں ہمارے اور تمہارے حالات ملتے ہیں۔

اس نے کہا: ہاں! مجھے ماضی، حال اور مستقبل کا علم ہے۔

کہا: کیا تم نام سے جانتے ہو یا وصف سے؟

اس نے کہا: سب چیزوں کا وصف  ہے اور وہ بے نام ہیں ، یا چیزوں کا نام ہے اور ان کا وصف نہیں ہے۔

کہا: تمہیں امير المؤمنین! کے وصف کے بارے میں کیا ملا؟

اس نے کہا: اس زمانے میں اس کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ وہ ایک کامیاب بادشاہ ہے ،اور جو بھی اس کے مقابلہ میں کھڑا ہو ،پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔

کہا: اس کے بعد کس کا نام ہے؟

اس بوڑھے شخص نے کہا:ایک شخص ہے جسے ولید کہتے ہیں۔

کہا: اور اس کے بعد کون ہے؟

اس شخص نے کہا: پیغمبر کا ہم نام ہے کہ جس کے ذریعہ لوگوں کے لئے فتح رونما ہو گی۔

کہا: کیا تم مجھے جانتے ہو۔

اس نے کہا: تمہارے بارے میں مجھے بتایا گیا ہے۔

کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں کہاں کا حاکم ہوں۔

اس نے کہا: ہاں.

کہا: میرے بعد کون حاکم ہو گا؟

اس نے کہا: یزید نام کا کوئی شخص ہے۔

کہا: میری زندگی میں یا میری زندگی کے بعد؟

اس نے کہا: میں نہیں جانتا.

کہا: کیا تم اس کی تفصیلات جانتے ہو؟

اس شخص نے کہا: وہ کوئی خیانت کرے گا، اس کے سوا کچھ نہیں جانتا۔

کہتے ہیں: يزيد بن مهلب اس کے دل میں بیٹھ گیا اور وہاں سے روانہ ہونے کے بعد سات مقام طے کئے لیکن وہ اس بوڑھے شخص کی باتوں سے خوفزدہ تھا اور اس نے اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد عبدالملك کو خط لکھا کہ اسے عراق کے امور سے معاف رکھو۔

عبدالملك نے اسے لکھا: اے حجّاج کی ماں کے بیٹے! میں جانتا ہوں کہ تمہارا کیا مقصد ہے، تم اپنے بارے میں میری رائے جاننا چاہتے ہو ۔ خدا کی قسم میں نافع بن علقمہ کا مقام جانتا ہوں۔ اس بات سے درگذر کرو یہاں تک کہ جو خدا چاہے وہی رونما ہو۔

فرزدق نے اس سفر کے بارے میں اشعار کہے ہیں کہ جن کا مضمون کچھ یوں ہے:«اگر پرنده کو ایسے سفر پر بھیجیں کہ جو واسط سے ايليا تک جائے تو وہ تھک جائے».

کہتے ہیں: ایک دن حجّاج نے تنہائی میں عبید بن موہب کو طلب کیا کہ حجّاج فکرمند ہے۔ جب وہ آیا تو اس نے کہا: وای ہو تم پر؛ اہل کتب کہتے ہیں کہ یزید کے نام سے کوئی شخص میرے بعد میری حکومت سنبھالے گا ، يزيد بن ابى كبشه، يزيد بن حصين اور يزيد بن دينار کے بارے میں غور کیا مگر وہ اس قابل نہیں ہیں۔ اگر کوئی ہے تو وہ يزيد بن ‏مهلب کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے۔

عبيد نے کہا: تم نے انہیں معتبر بنا دیا ہے اور بہت بڑی ولایت و حکومت دی ہے۔ ان کے پاس جماعت، بہادی، قسمت ہے اور وہ سلطنت کا مالک ہے۔

حجّاج نے یزید کو معزول کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا  اور اسے کوئی ایسی دستاویز نہ ملی کی جس کی رو سے وہ خیار بن سبره کو طلب کرے  کہ جو مہلب کے ‏سواروں اور یزید کے ساتھیوں میں سے تھا۔  جب وہ آیا تو حجّاج نے اس سے کہا: مجھے یزید کے کاموں کے بارے میں بتاؤ.

اس نے کہا: وہ مطيع اور نيك سیرت ہے.

حجّاج نے کہا: تم جھوٹ بول رہے ہو، مجھ سے سچ کہو۔

اس نے کہا: خدا بزرگ و والا، وہ زمین پر بیٹھا ہے لیکن اس کی لگام نہیں ہے۔

حجاج نے کہا: اب تم نے سچ کہا ہے۔ اور اس کے بعد خيار کو عمان کا عامل بنا دیا۔

 کہتے ہیں: جب حجّاج نے عبدالملك کو خط لکھا اور يزيد اور مہلب کے خاندان کی مذمت کی کہ وہ زبیری تھے۔

عبدالملك نے اسے خط لکھا: میں خاندان زبیر کی اطاعت کو خاندان مہلب کے لئے نقص کا باعث نہیں سمجھتا بلکہ ان کے ساتھ وفا کی اور ان کی خاندان زبیر سے وفاداری کی وجہ سے مجھے بھی ان کا وفادار ہونا چاہئے۔

کہتے ہیں: حجّاج نے ایک بار پھر عبدالملك کو خط لکھا اور اسے ان کی خیانت سے خبردار کیا اور اسے اس بوڑھے شخص کی خبر سے آگاہ کیا۔

عبدالملك نے اسے پھر خط لکھا: تم نے یزید اور آل مہلب کے بارے میں بہت باتیں کیں۔ مجھے کسی ایسے شخص کا نام بتاؤ جو خراسان کے لئے شائستہ ہو۔

کہتے ہیں: حجّاج نے مجاعة بن عسر سعدى کا نام لیا اور عبدالملك نے اسے خط لکھا: تم نے خاندان مہلب کی تباہی و بربادی کے بارے میں جو کچھ سوچا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے تم نے مجاعة بن سعر کا نام لیا ہے۔ ایک ایسا شخص جو سخت ہو اور تمہارے احکامات کا پابند ہو۔

حجّاج نے قتيبة بن مسلم کا نام لیا تو عبدالملك نے لکھا کہ اسے وہاں کا حاکم بنا دو.

   کہتے ہیں: يزيد کو خبر ملی کہ حجّاج نے اسے معزول كر دیا ہے اور اس نے اپنے خاندان والوں سے کہا: آپ کی نظر میں حجّاج کسے خراسان کا ولی عہد بنائے گا؟

انہوں نے کہا: ثقيف کے لوگوں میں سے کسی ایک کو.

اس نے کہا: نہیں۔ وہ تم لوگوں میں سے کسی ایک کے بارے میں حکم جاری کرے گا اور جب میں اس کے پاس جاؤں گا تو وہ اسے معزول کر کے قیس کے لوگوں میں سے کسی ولی عہد بنا دے گا۔ اور وہ قتيبه ہو سکتا ہے.

  کہتے ہیں: جب عبدالملك نے حجّاج کو اجازت دی کہ وہ یزید کو معزول کر دے تو اس نے یزید کی معزولی کا حکمنامہ نہ لکھا بلکہ اس نے لکھا کہ مفضل کو اپنا جانشین بنا کر میرے پاس آؤ۔ يزيد نے حصين بن منذر سے مشورہ کیا  اور اس سے کہا: تم رہو اور اس بارے میں تأخیر کرو کہ امیر المؤمنین!! تمہارے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہے اور یہ حجّاج کا کام ہے۔ اور اگر تم یہاں رہو اور جلد بازی نہ کرو تو مجھے امید ہے کہ وہ یزید کو لکھے کہ اسے اپنے عہدہ پر باقی رہنے دو۔

اس نے کہا:ہمیں اطاعت و برکت سے یہ خاندان ملا ہے اور میں اس کی نافرمانی اور مخالفت پسند نہیں کرتا۔ اور پھر وہ جانے کے لئے تیار ہو گیا  اور جب اس کے جانے میں تأخیر ہو گئی تو حجّاج نے مفضّل کو لکھا کہ میں نے تمہیں خراسان کا ولی عہد بنا دیا ہے اور مفضّل یہ چاہتا تھا کہ یزید کو اس بارے میں جلدی کرنے کی ترغیب دے۔

يزيد نے اس سے کہا: میرے بعد حجّاج تمہیں اس عہدہ پر باقی نہیں رکھے گا بلکہ وہ یہ کام اس لئے کر رہا کہ اسے یہ خوف ہے کہ میں اس کے سامنے کھڑا ہو جاؤں گا ۔

مفضل نے کہا: تم مجھ سے حسد کر رہے ہو؟

يزيد نے کہا: اے بهله کے بیٹے! میں تم سے حسد کر رہا ہوں؟ خیر تم یہ جان لو گے۔

کہتے ہیں: يزيد سنہ پچاسی ہجری میں ربيع الآخر کے مہینہ میں روانہ ہوا۔ شاعر نے مضل اور عبد الملک (جو ایک ہی ماں سے تھے) سے خطاب کرتے ہوئے کچھ اشعار کہے  جن کا مضمون کچھ یوں ہے:: «اے ‏بهله کے بیٹو!  جس دن اعلٰی دلیر چلا گیا، خداوند نے تمہیں خوار کر دیا۔ تم نے اپنے بھائی کے لئے گھڑا کھودا اور اس کی گہری اور تاریک کھائی میں گر گئے۔ سچی توبہ کرو کیونکہ جو بھی توبہ کرنے سے دریغ کرے ، وہ مزید نقصان دیکھتا ہے ».

حصين نے يزيد کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ اشعار کہے کہ جن کا مضون یہ ہے: «میں نے تمہیں عاقلانہ بات بتائی مگر تم نے میری بات پر عمل نیں کیا، حکومت تمہارے ہاتھ سے چلی گئی اور تم پسیمان ہوئے۔ میں تمہارے شوق میں گریہ نہیں کر رہا اور میں یہ دعا نہیں کرتا کہ تم سالم واپس آؤ ».

کہتے ہیں:اور جب قتيبه خراسان پہنچا تو حصين سے کہا: تم نے یزید سے کیا کہا ہے؟

اس نے کہا: میں نے اس سے کہا ہے کہ میں نے تمہیں عاقلانہ بات بتائی ہے لیکن تم نے میری بات پر پر عمل نہیں کیا۔ اگر تم ملامت کرنا چاہو تو اپنی ملامت کرو۔  اگر حجّاج یہ جان لے کہ تم نے اس کی نافرمانی کی ہے تو تمہیں اس کے مزید سخت حکم کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کہا: تم نے کیا کہا تھا کہ جو اس نے تمہاری بات نہیں مانی۔

اس نے کہا: میں نے اس سے کہا تھا کہ جتنا سونا اور چاندی ہے سب امیر کے لئے لے جاؤ۔

کہتے ہیں: کسی نے عيّاض بن حصين سے کہا تھا: جب تمہارا باپ قتیبہ کے سامنے سے بھاگ گیا تو قتیبہ نے اس کے عمل کو اس کی باتوں کے مخالف سمجھا کہ جو اس نے کہا تھا کہ  میں نے یزید سے کہا: جتنا سونا اور چاندی ہے سب امیر کے لئے لے جاؤ۔.(2898)


2898) تاريخ طبرى: 3764/9.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 863
آج کے وزٹر : 1502
کل کے وزٹر : 19532
تمام وزٹر کی تعداد : 128820304
تمام وزٹر کی تعداد : 89500125