حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امامزادہ قاسم بن الامام موسی بن جعفر علیہماالسلام کی باعظمت شخصیت

امامزادہ قاسم بن الامام موسی بن جعفر علیہماالسلام

کی باعظمت شخصیت

******************************

22 جمادی الاوّل؛ جناب قاسم بن الامام موسی بن جعفر علیهماالسلام کی وفات (ایک روایت  کے مطابق(

******************************

سید بن طاؤوس نے کتاب مصباح الزائر میں جناب قاسم کی زیارت کی تصریح کی ہے اور فرمایا ہے: جناب قاسم بن موسی بن جعفر علیہماالسلام کی زیارت کا ثواب حضرت قمر بنی ہاشم علیہ السلام اور حضرت علی اکبر علیہ السلام کی زیارت کی مانند ہے۔

جناب قاسم بن موسی بن جعفر علیہما السلام کا مرقد مطہر شہر حلہ کے باہر واقع ہے کہ جس کا قبہ بھی ہے اور یہ بارگاہ ہر خاص و عام کے لئے زیارتگاہ ہے۔

کتاب عمدة الطالب میں لکھتے ہیں: جناب قاسم کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

ناسخ التواریخ میں جناب قاسم کے حالات زندگی کے بارے میں سید بحر العلوم کی کتاب ’’فوائد‘‘ سے حضرت رضا علیه السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو کوئی میرے بھائی قاسم کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی۔

شیخ صدوق کتاب ثواب الأعمال میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  نے فرمایا: جو شخص میری یا میری ذریت میں سے کسی کی زیارت کرے، میں قیامت کے دن اس کی زیارت کروں گا اور میں اسے اس دن کے خوف و ہراس سے نجات دوں گا۔

کتاب جامع الأخبار میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جو کوئی میرے فرزندوں میں سے کسی ایک کی ان کی حیات میں یا ان کی وفات کے بعد زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی اور جس نے میری زیارت کی خدا اسے بخش دے گا۔

کتاب مصباح کفعمی میں حضرت موسی بن جعفر علیہماالسلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:اگر کوئی میری زیارت کرنے پر قادر نہ ہو اور اگر وہ اپنے نیک اور دینی بھائیوں کی زیارت کرے تو اس کے نامۂ اعمال میں میری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا۔

مؤلف کہتے ہیں: یہ معلوم نہیں ہے کہ جناب قاسم بن موسی بن جعفر علیہم السلام کیسے اس سرزمین پر آئے اور اسی مقام پر دنیا سے کوچ فرما گئے۔ کیا یہ اپنی بہن حضرت معصومہ علیہا السلام کے ساتھ تھے؟ یا یہ اپنے بھائی شاہ چراغ کے ہمراہ تھے؟ یا لشکر ابوالسرایا میں شامل تھے؟ کسی بھی صورت میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس طرح حلہ چلے گئے۔

بعض علماء کہتے ہیں:ہارون، منصور، مہدی اور ہادی عباسی کے زمانے میں محمد اور ابراہیم کے خروج کرنے کے بعد علوی سادات، حسنی سادات، حسینی سادات اور موسوی سادات مخفیانہ طور پر زندگی بسر کرتے تھے اور وہ اپنا حسب و نسب ظاہر نہیں کرتے تھے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا یہاں تک کہ مأمون نے حضرت رضا علیه السلام کو اپنا ولی عہد قرار دیا تو مختلف شہروں سے سادات خراسان کی طرف روانہ ہوئے اور اسی اثناء میں حضرت امام رضا علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا اور سادات جہاں کہیں بھی تھے وہ وہیں متوقف ہو گئے اور وہ  آل رسول علیہم السلام کے دشمنوں سے اپنے حسب و نسب  کو مخفی رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ دنیا سے چلے گئے۔

جیسا کہ کہا گیا ہے:جناب قاسم بن موسی بن جعفر علیہم السلام دشمنوں کے خوف کی وجہ سے مخفیانہ طور پر زندگی بسر کر رہے تھے جس کی وجہ سے وہ شہر حلہ کی طرف گئے اور ایک عرب بزرگ کے مہمان خانہ میں داخل ہوئے لیکن آپ اپنے حسن و نسب کو مخفی رکھتے تھے۔

کچھ مدت کے بعد صاحب خانہ اور ان کی زوجہ جناب قاسم کی عبادت اور نجابت سے متأثر ہوئے اور انہوں نے آپ سے سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی لیکن کچھ عرصہ کے بعد جناب قاسم مریض ہو گئے جس پر آپ کے سسر بہت گریہ کر رہے تھے ، آپ نے ان سے رونے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا: کیونکہ عرب کے لوگ مجھے طعنہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں: تم نے اپنی بیٹی کی شادی ایک ناشناس شخص سے کر دی ہے۔

قاسم نے ان کے جواب میں کہا: میں کوئی ناشناس نہیں ہوں؛ میں قاسم بن موسی بن جعفر ہوں اور اب تک میں نے دشمن کے خود سے اپنا تعارف نہیں کروایا تھا لیکن اب چونکہ اپنے میں موت سے شرفیاب ہو رہا ہوں لہذا مجھے دشمن کا کوئی خوف نہیں ہے۔(1)


(1) اختران تابناک ج 1 ص 383 .

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات: ص 1795

 

 

ملاحظہ کریں : 901
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 44097
تمام وزٹر کی تعداد : 128466291
تمام وزٹر کی تعداد : 89323095