حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
ہمارے مذکورہ بیان کا نتیجہ

ہمارے مذکورہ بیان کا نتیجہ

ہمارے مذکورہ بیان کی رو سے اہل بیت علیہم السلام کےحرم میں موجود روحانی حاکمیت کی وجہ سے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حرم میں ائمہ اطہار علیہم السلام اور اعلیٰ مقام امام زادوں کی ضریح معنوی حاکمیت اور علمی نقطۂ نظر کے لحاظ سے سب سے زیادہ پاک اور مطہر مقام ہے ۔

اس بنا پرحرم کو کھولنے اور ضریح کو  بند کرنے کی کوئی معنوی اور علمی  دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔

جس طرح حرم اور مزارات کو بند کرنے کی  نہ تو کوئی معنوی دلیل ہے اور نہ ہی اس کا کوئی علمی جوازہے ،  اسی طرح حرم کو بند کرنا یا ضریح مقدس  سے متبرک ہونے کی راہ میں حائل ہونا  بھی تجربات کے برخلاف ہے۔

کربلا و نجف میں مزارات کا کھلا رہنا اور اربعین کے ایّام میں لاکھوں کے اجتماعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان مقدس مقامات پر لوگوں کا ایمان و اعتقاد اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی اپنے زائرین پر خاص عنایات عالمی ادارۂ صحت کے اقوال سے بالاتر ہے ۔

جو لوگ تاریخ سے سروکار رکھتے ہیں اور تاریخی مسائل سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ پوری تاریخ میں طاعون جیسی کئی وبائی بیماریوں نے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا کہ جن کا کورونا سے موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔

سنہ ۷۴۹ء میں جب طاعون نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور ہر دن کئی ہزار لوگ لقمۂ اجل بن رہےتھے،حالانکہ اس وقت ہمارے زمانے کے مقابلے میں انسانی آبادی بہت کم تھی۔

اس زمانے میں نہ تو لوگوں کو مساجد میں جمع ہونے سے ڈرایا گیا اور نہ ہی اہل بیت علیہم السلام  کے حرم میں جانے سے روکا گیا ، بلکہ لوگوں کو ہزاروں کی تعداد میں مسجدوں اور صحراؤں میں جمع ہونے کی دعوت دی گئی تا کہ وہ   طاعون کی بیماری کے خاتمے کے لئے دعا کریں ۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں یہ حقیقت لکھی ہے۔

ابن بطوطہ کا قول نقل کرنے سے پہلے ہم آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کراتے ہیں کہ ابتدائے اسلام اور ائمہ علیہم السلام کے حضور کے زمانے میں جب بھی طاعون اور وبائی بیماریوں نے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تو آپ کو کوئی بھی مورد نہیں ملے گا کہ جس میں ائمہ اطہار علیہم السلام کے حرم یا مساجد میں لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہو ، اور لوگوں کے لئے  حرم اور مساجد کے دروازے بند کر دیئے گئے ہوں۔

ہم یہ حقیقت كتاب «كرونا در دايره پرسمان» سے نقل کرتے ہیں :

«جہاں تک ہم نے تحقیق کی ہے، ہمیں ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے حضور کے زمانے میں وبائی امراض کی وجہ سے مساجد اور مزارات  کر بند کر دیا گیا ہو اور نماز جمعہ  و جماعت جیسے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہو ۔

پس کچھ اشارات (جنہیں ہم بعد میں بیان کریں گے ) سے قطع نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی متعدی بیماری سے نمٹنے کے لئے لوگوں کے مساجد اور مزارات میں جانے پر پابندی لگانا ایک نادر واقعہ تھا۔

اور شاید اس کی جڑیں لوگوں کے اس طرح کی بیماریوں کو دیکھنے کے انداز سے وابستہ ہوں، جو بعض اوقات توہمات پر مبنی ہوتی ہیں ۔ اس بارے میں طاعون جیسی وبائی بیماریوں کی طبی تاریخ کو مدنظر رکھنا مفید ہو سکتا ہے ۔مثال کے طور پر روایتی طب کے ذرائع طاعون میں ستاروں اور سیاروں کی نقل و حرکت، ہوا کے ارتکاز اور نمی کے لحاظ سے خطے کی ماحولیاتی حالت، ہوا کی بدبو اور لوگوں کی جسمانی صلاحیت کو موثر سمجھتے تھے۔  یہاں تک کہ وہ ڈر، خوف اور وہم کو بھی اس کے پھیلاؤ کا سبب سمجھتے تھے ۔ یہ فطری ہے کہ اس طرح کے روش بیماری کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لئے بھی مؤثر ہے۔حتی ڈر اور خوف کی بنیاد پر بھی مساجد اور مزارات کو بند کرنے کا جواز نہیں ملتا کیونکہ ان حالات میں انسان میں ایسے مقامات پر جانے کا رجحان بڑھ جاتا ہے ۔

اس بارے میں متعدد مطالعات اور تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان ڈاکٹروں کو طویل عرصے سے ان بیماریوں کے متعدی ہونے کا گمان تھا ، تاہم روایتی طبی علاج کے طریقوں میں مساجد وغیرہ کو بند کرکے بیمار لوگوں سے رابطہ منقطع کرنے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا ہے، البتہ  طبی ذرائع میں اس سرزمین کو چھوڑنے کی تاکید کی گئی ہے جو  طاعون میں مبتلا ہو۔اسلامی روایات میں بھی آلودہ جگہوں کو چھوڑنے کی تاکید کی گئی ہے، لیکن ان میں مساجد اور مذہبی مراکز کی بندش کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔[1]

 


[1] ۔ كرونا در دايره پرسمان: ۲۴۴.

ملاحظہ کریں : 145
آج کے وزٹر : 8024
کل کے وزٹر : 19532
تمام وزٹر کی تعداد : 128833340
تمام وزٹر کی تعداد : 89506646