حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
قرآن میں آسمان و زمین کا گریہ

قرآن میں آسمان و زمین کا گریہ

اہل بیت عصمت و طہارت  علیہم السلام کی روایات میں وارد ہونے والے امور میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر آسمان و زمین کا گریہ کرنا ہے ۔ اہل بیت علیہم السلام کے فرمودات میں یہ حقیقت مختلف تعبیروں سے بیان ہوئی ہے ۔

اس بارے میں کچھ روایات نقل کرنے سے پہلے ہم قرآن کی نظر میں زمین و آسمان کے گریہ کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں کہ کیا قرآن کریم کی نظر میں زمین و آسمان کا گریہ کرنا ممکن ہے ؟ کیا قرآن میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے ؟ کیا قرآن کی نظر میں زمین و آسمان کا گریہ کرنا صحیح ہے ؟

یہ واضح سی بات ہے کہ اگر قرآن کی نظر میں زمین و آسمان نے کسی شخص یا کسی واقعہ پر گریہ کیا ہے تو پھر زمین و آسمان کے گریہ کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام سب سےاہم شخص اور عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت سب سے اہم واقعہ  ہے ۔

قرآن کریم کی آیات پر غور و فکر کرنے سے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ قرآن آسمان و زمین کے گریہ کرنے پر دلالت کرتا ہے ۔

قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے :

«فَمابَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّماءُ وَ الْأَرْضُ وَ ما كانُوا مُنْظَرِينَ »۔ [1]

پھر تو ان پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین اور نہ انہیں مہلت دی گئی ۔  

اس آیۂ شریفہ  میں خداوند کریم  نے کچھ قبائل اور اقوام کی اس وجہ سے ملامت کی ہے کہ ان کی موت پر زمین و آسمان ان پر گریہ نہیں کرتے ۔

اس آیت شریفہ کا مفہوم بخوبی دلالت کرتا ہے کہ آسمان و زمین گریہ کرتے ہیں ، ورنہ خداوندمتعال کی جانب سے کچھ اقوام کی صرف  اس وجہ سے ملامت کرنے کا کوئی معنی نہیں بنتا کہ آسمان و زمین ان پر نہیں روئے ۔

اس آیت کے بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے منقول روایت کے ایک حصے پر توجہ کریں :

 وَ قَدْ أَدْبَرَتِ الْحِيلَۃُ وَ أَقْبَلَتِ الْغِيلَۃُ وَ لَاتَ حِينَ مَنَاصٍ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ قَدْ فَاتَ مَا فَاتَ وَ ذَهَبَ مَا ذَهَبَ وَ مَضَتِ الدُّنْيَا لِحَالِ بَالِهَا «فَما بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّماءُ وَ الْأَرْضُ وَ ما كانُوا مُنْظَرِينَ»

اميرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام دنیا پرستوں کی قسمیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کچھ ہلاکت اور تباہی میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن دنیا نے انہیں کاری زخم دیا ہے ، ایک گروہ کا بدن پارہ پارہ اور کھال اتری ہوئی ہے، کچھ لوگوں کے سر قلم ہوئے ہیں،اور دوسرے گروہ کا خون  زمین پر بہایا گیا ہے، کچھ لوگ منہ میں انگلیاں ڈال کر کاٹ رہیں ہیں ، اور کچھ شدید حسرت اور ندامت کی وجہ سے ہاتھ مل رہے  ہیں، کچھ خیالات میں کھوئے ہوئے ہیں، کچھ لوگ اپنی ماضی کی غلطیوں پر افسوس کر رہے ہیں ، اور کچھ اپنی نیت سے پلٹ گئے ہیں ، لیکن ان کے لئے چارہ جوئی کا راستہ بند ہو گیا ہے اور ان کی ناگہانی موت آپہنچی ہے، اور  نجات کا وقت گزر گیا ہے، ہیہات ، ہیہات ! کیا کھو دیا، سو کھو دیا ، اور جو  گزر گیا ،سو گزر گیا اور دنیا جس طرح خود چاہتی تھی ختم ہو گئی؛ «فَما بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّماءُ وَ الْأَرْضُ وَ ما كانُوا مُنْظَرِينَ». [2]

 


[1] ۔ سورۂ دخان ، آیت : ۲۹ .

[2] ۔  تفسیر اہل بیت علیہم السلام : ج ۱۴ ، ص ۱۸۴ .نہج البلاغہ ، ص ۲۸۴.

ملاحظہ کریں : 145
آج کے وزٹر : 15801
کل کے وزٹر : 24593
تمام وزٹر کی تعداد : 128809849
تمام وزٹر کی تعداد : 89494891