حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۱۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزاداری

۱۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزاداری

ابن عباس بیان کرتے ہیں :ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  تشریف فرما تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام آئے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے جب انہیں دیکھا تو رو پڑے اور پھر فرمایا: میرے عزیز بیٹے! میرے عزیز بیٹے! آگے آؤ ، آگے آؤ ۔ آپ نے انہیں اپنے پاس بلا کر اپنی آغوش  میں دائیں طرف  بٹھا لیا۔  پھر امام حسین علیہ السلام آئے اور جب آپ نے انہیں دیکھا تو رو پڑے اور پھر فرمایا : میرے عزیز بیٹے! میرے عزیز بیٹے! آگے آؤ ، آگے آؤ ۔ آپ نے انہیں اپنے پاس بلا کر اپنی آغوش میں بائیں طرف بٹھا لیا ۔ پھر  حضرت فاطمہ علیہا السلام آئیں، اور جب آپ نے انہیں دیکھا تو رو پڑے اور پھر فرمایا:میری عزیز بیٹی! آگے آؤ،  آگے آؤ ۔ آپ نے انہیں اپنے پاس بلا کر اپنے سامنے بٹھا لیا ۔ پھر امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام آئے اور جب آپ نے انہیں دیکھا تو رو پڑے اور پھر فرمایا : میرے بھائی!آگے آؤ ، آگے آؤ ۔ آپ نے انہیں اپنے پاس بلا کر اپنے دائیں طرف بٹھا لیا ۔

اصحاب نے آپ سے عرض کی : یا رسول اللہ! آپ نے ان میں سے ہر ایک کو دیکھ کر گریہ کیا ، کیا ان میں کوئی ایسا نہیں تھا ، جسے دیکھ کر آپ خوش ہوتے ؟ آنحضرت نے فرمایا :  قسم ہے اس ذات کی ! جس نے مجھے نبوت کے لئے مبعوث کیا اور تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا ، میں اور وہ  خدا کی بارگاہ میں تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ مکرم ہیں  اور روئے زمین پر میرے نزدیک ان سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہے ۔ علی بن ابی طالب علیہما السلام ! میرے بھائی اور میرے ہم پلہ ہیں،  وہ میرے بعد صاحب الامر ہیں ، دنیا و آخرت میں میرے صاحب لواءہیں ، اور  صاحب حوض و شفاعت ہیں ۔ وہ هر مسلمان کے مولا ،ہر مؤمن کے امام ،  ہر تقویٰ دار  کے پیشوا  اور میری اہل بیت (علیہم السلام) اور میری امت پر میری حیات میں اور میری وفات کے بعد میرے وصی اور جانشین ہیں ، ان کا محب میرا محب ہے اور ان کا دشمن میرا دشمن ہے ، ان کی ولایت کے ذریعہ میری امت پر رحمت ہو گی ، اور ان کی دشمنی سے میری امت میں سے ان کے مخالفین پر لعنت ہو گی ۔ جب وہ آئے تو میرے رونے کا سبب یہ تھا کہ مجھے میرے بعد میری امت کی طرف سے ان کے حق میں ہونے والی عداوت اور مکاری یاد آ گئی ، حالانکہ خدا نے میرے بعد انہیں میرا جانشین قرار دیا ہے ، لیکن اس کے باوجود انہیں ان کے حق سے محروم کر دیا جائے اور پھر یہاں تک نوبت آ جائے گی کہ بہترین مہینے میں کہ جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے  : ’’شَهْرُ رَمَضانَ  الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ ‏مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ‘‘[1]( ماه رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے  اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں )ان کے سر اقدس پر ایسا وار کیا جائے گا کہ جس سے ان کی ریش مبارک خون آلود ہو جائے گی۔

اور میری بیٹی فاطمہ؛ اوّلین و آخرین میں سے عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ، وہ میرے جسم کا ٹکڑا ، میری آنکھوں کا نور ، میرے دل کا ثمر ، اور دو پہلؤوں کے درمیان میری روح ہیں ، وہ حوریۂ انسانی ہیں ، جب وہ محراب میں اپنے پروردگار - جلّ جلاله- کے حضور کھڑی ہوتی ہیں تو ان کا نور آسمان کے فرشتوں کے لئے  اس طرح سے درخشاں ہوتا ہے ، جس طرح اہل زمین کے لئے آسمان کے ستاروں کا نور چمک رہا ہوتا ہے ،  خداوند عزّوجلّ  اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے : «اے ‏میرے فرشتو!میری کنیزفاطمه کو دیکھو جو مؤمن عورتوں کے لئے اسوہ ہیں ، وہ میرے حضور اس طرح کھڑی ہیں کہ ان کی ہڈٰیاں میرے خوف سے لرز رہی ہیں اور وہ اپنے دل سے میری عبادت کے لئے آئی ہیں ، میں تمہیں گواہ قرار دیتا ہوں کہ  میں نے اس کے پیروکاروں کو آتش (جہنم) سے نجات دے دی ہے ۔» جب میں نے انہیں دیکھا تو  مجھے وہ سلوک یاد آ گیا جو میرے بعد ان کے ساتھ روا رکھا جائے گا ، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کے گھر میں خواری داخل ہوئی ہے ، ان کی حرمت کو پامال کیا گیا ہے ، ان کے حقوق کو غصب کیا گیا ہے ، انہیں ان کے ارث سے محروم کیا گیا ہے ، ان کا پہلو شکستہ اور ان کا جنین سقط ہو گیا ہے ، اور وہ فریاد کر رہی ہیں ، وا محمداہ ! لیکن انہیں کوئی جواب سنائی نہیں دے گا ،اور  کوئی ان کی فریاد رسی نہیں کرے گا ، وہ میرے بعد ہمیشہ غمزدہ اورمصیبت زدہ ہوں گی اور روتی رہیں گی  اور اپنے گھر سے وحی کے منقطع ہو جانے کو یاد کریں گی ، جو اچانک پیش آئے گا ، وہ میری جدائی کو یاد کریں گی ، وہ راتوں کو  میری تلاوت قرآن کی آواز نہ سننے کی وجہ سے خوف و وحشت محسوس کریں گی ، اور خود کو خوار دیکھیں گی ، جب کہ وہ اپنے بابا کے زمانے میں عزیز تھیں ۔  خداوند اس زمانے میں انہیں فرشتوں سے مأنوس کرے گا  اور فرشتے ان سے اسی طرح سے خطاب کریں گے جس طرح وہ مریم بنت عمران سے خطاب کرتے تھے  اور وہ کہیں گے : اے فاطمہ!

«إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ عَلى نِساءِ الْعالَمِينَ»[2]

بیشک خدا نے تمہیں برگزیدہ قرار دیا ، پاک و پاکیزہ کیا اور تمہیں عالمین کی عورتوں پر برتری دی ۔

اےفاطمه!

«اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ»[3]

تم  اپنے پروردگار کی اطاعت کرو ، اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔

پھر ان کے درد کا آغاز ہو جائے گا اور وہ بیمار ہو جائیں گے ۔  پس خداوند عزّ وجلّ مريم بنت عمران کو ان کی تیمارداری کے لئے بھیجے گا تا کہ وہ بیماری کے عالم میں ان کی مؤنس ہوں اور وہ اس وقت کہیں گی: پروردگارا! اب میں زندگی سے بیزار ہوں اور اہل دنیا سے تھک گئی ہوں ، اب مجھے میرے بابا سے ملحق کر دے ! خداوند عزّوجلّ انہیں مجھ سے ملحق کر دے گا، وہ میری اہل بیت (علیہم السلام) میں سب سے پہلے مجھ سے ملیں گی ، وہ ‏غمزدہ ، مصيبت زده ، غم ‏ديده ، حق کے غصب ہونے والی حالت اور مقتولہ کی صورت میں میرے پاس آئیں گی اور پھر اس وقت میں کہوں گا: خدايا ! جس نے ان پر ظلم کیا ہے تو  اس پر لعنت بھیج ، اور جس نے ان کے حق کو غصب کیا ہے تو اسے عذاب دے ، اور جس نے انہیں خوار کیا ہے  تو انہیں ذلیل و خوار کر ، اور جس نے ان کا پہلو توڑا ہے اور جس کی وجہ سے اس کا بچہ سقط ہوا ہے ، اسے ہمیشہ کے لئے آتش جہنم میں قرار دے!اس وقت فرشتے آمین کہیں گے ۔

اور امام حسن (علیہ السلام)؛ وہ میرا بیٹا ،  اور میرا فرزند ہے ، وہ مجھ سے ہے ، وہ میری آنکھوں کا نور ہے ، میرے دل کی روشنی ہے اور میرے دل کا ثمر ہے ۔ وہ جوانان جنت کا سردار اور امت میں خدا کی حجت ہے ، اس کا حکم میرا حکم ہے ، اور اس کا قول  میرا قول ہے ، جو کوئی ان کی پیروی کرے ، وہ مجھ سے ہے ، اور جو ان کی مخالفت کرے وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھے وہ مصائب یاد آ گئے جو میرے بعد انہیں درپیش ہوں گے ۔ یہاں تک کہ انتہائی ظلم و ستم سے انہیں زہر دے کر قتل کر دیا جائے گا ، ساتوں آسمان کے فرشتے ان پر گریہ کریں گے اور تمام موجودات ، حتی آسمان میں پرندے  اور دریا میں مچھلیاں بھی ان پر گریہ کریں گی ؛ جو کوئی بھی ان پر گریہ کرے  تو اس کی آنکھیں اس دن نابینا نہیں ہوں گی جب سب آنکھیں نابینا ہوں گی ، اور جس کا دل ان پر پریشان اور محزون ہو گا تو اس کا دل اس دن محزون نہیں ہو گا جب سب دل محزون ہوں گے ، اور جو کوئی بھی بقیع میں ان کی زیارت کرے تووہ اس دن ثابت قدم رہےگاجب پل صراط پر سب کے قدم لڑکھڑائیں گے۔

اور حسين‏ عليه السلام[4]؛ وہ میرا بیٹا ،  اور میرا فرزند ہے ، وہ اپنے بھائی کے بعد سب سے برتر مخلوق ہے ، وہ مسلمانوں کے امام اور مؤمنوں کے مولا ہیں ، وہ  رب العالمین کے جانشین اور فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کرنے والے ہیں ، وہ پناہ دینے والے اور تمام مخلوقات پر خدا کی حجت ہیں ۔ وہ جوانان جنت کے سردار اور امت کی نجات کا دروازہ ہیں ۔ ان کا امر  میرا امر ہے اور ان کی اطاعت میری اطاعت ہے ۔ جو ان کی پیروی کرے  اس نے میری پیروی کی ، اور جو ان کی مخالفت کرے وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھےوہ  (واقعات) یاد آئے جو میرے بعد ان کے ساتھ پیش آئیں گے ۔ گویا میں وہاں ہوں کہ وہ میرے حرم اور میری اہل بیت کے لئے پناہ طلب کر رہے ہیں ، لیکن انہیں پناہ نہیں دی جائے گی ۔ میں خواب میں انہیں اپنی آغوش میں لوں گا اور انہیں مدینہ سے کوچ کرنے کا حکم دوں گا ، اور انہیں شہادت کی بشارت دوں گا ۔ وہ اپنی قتلگاہ ، اپنے زمین پر گرنے والے مقام اور سرزمین کربلا  اور قتل و فَناء کی طرف جائیں گے ، اور مسلمانوں کا ایک گروہ ان کی مدد کرے گا ، جوقیامت کے دن میری امت کے شہیدوں کے سرداروں میں سے ہو گا۔ گویا میں اب انہیں دیکھ رہا ہوں کہ  ان کی طرف تیر برسائے جا رہے ہیں ، اور وہ  گھوڑے سے زمین پر گر رہے ہیں ، اور پھر ان کے سر کو مظلومانہ طور سے گوسفندکی طرح تن سے جدا کیا جائے گا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور آپ  کے پاس بیٹھے ہوئے افراد نےیہ سن کرگریہ کیا ، اور ان کے رونے اورفریاد کرنے کی صدائیں بلند ہو گئیں ۔ پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کھڑے ہوئے اور خدا کی بارگاہ میں عرض کی : بارالہٰا!میرے بعد میری اہل بیت (علیہم السلام ) پر جو مصائب آئیں گے ، میں تجھ سے ان کی شکایت کرتا ہوں ۔ پھر آپ اپنے گھر میں تشریف لے گئے ۔[5]

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان  میں کچھ اہم نکات موجود ہیں ،منجملہ اہل بیت علیہم السلام سے تمام مخلوقات کا  آشنا ہونا ۔

ہم یہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان میں موجود اہم نکات میں سے صرف دو نکات کی وضاحت کریں گے ۔

 


[1] ۔ سورهٔ بقره، آيت : ۱۸۵.

[2]۔سوره ٔ آل عمران، آيت : ۴۲.

[3]۔ سوره ٔ آل عمران، آيت : ۴۳.

[4]۔ وَأَمَّا الْحُسَيْنُ‏ عليه السلام فَإِنَّهُ مِنِّي وَ هُوَ ابْنِي وَ وَلَدِى وَ خَيْرُ الْخَلْقِ بَعْدَ أَخِيهِ وَ هُوَ إِمَامُ‏ الْمُسْلِمِينَ وَمَوْلَى الْمُؤْمِنِينَ وَخَلِيفَهُ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَغِيَاثُ الْمُسْتَغِيثِينَ وَكَهْفُ ‏الْمُسْتَجِيرِينَ وَحُجَّهُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ أَجْمَعِينَ وَهُوَ سَيِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّهِ وَبَابُ نَجَاهِ الْأُمَّهِ ‏أَمْرُهُ أَمْرِي وَطَاعَتُهُ طَاعَتِي مَنْ تَبِعَهُ فَإِنَّهُ مِنِّي وَ مَنْ عَصَاهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَ إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُهُ ‏تَذَكَّرْتُ مَا يُصْنَعُ بِهِ بَعْدِي كَأَنِّي بِهِ وَ قَدِ اسْتَجَارَ بِحَرَمِي وَ قُرْبِي فَلَا يُجَارُ فَأَضُمُّهُ فِي ‏مَنَامِي إِلَي صَدْرِي وَ آمُرُهُ بِالرِّحْلَهِ عَنْ دَارِ هِجْرَتِي وَ أُبَشِّرُهُ بِالشَّهَادَهِ فَيَرْتَحِلُ عَنْهَا إِلَي ‏أَرْضِ مَقْتَلِهِ وَ مَوْضِعِ مَصْرَعِهِ أَرْضِ كَرْبٍ وَ بَلَاءٍ وَ قَتْلٍ وَ فَنَاءٍ تَنْصُرُهُ عِصَابَهٌ مِنَ ‏الْمُسْلِمِينَ أُولَئِكَ مِنْ سَادَهِ شُهَدَاءِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَ قَدْ رُمِيَ بِسَهْمٍ فَخَرَّعَنْ فَرَسِهِ صَرِيعاً ثُمَّ يُذْبَحُ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ مَظْلُوماً ثُمَّ بَكَي رَسُولُ اللَّهِ ‏صلى الله عليه وآله وَبَكَي مَنْ‏ حَوْلَهُ وَ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ بِالضَّجِيجِ ثُمَّ قَامَ‏ عليه السلام وَ هُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْكُو إِلَيْكَ مَا يَلْقَي ‏أَهْلُ بَيْتِي بَعْدِي ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلَهُ.

[5] ۔ رك: تاريخ امام حسين علیه السلام:۱۸ /۲۵۵.

ملاحظہ کریں : 146
آج کے وزٹر : 13978
کل کے وزٹر : 45443
تمام وزٹر کی تعداد : 128496936
تمام وزٹر کی تعداد : 89338418