حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۲۔عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

۲۔عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی حیات کے آخری لمحات میں جو کلمات ارشاد فرمائے ، وہ اس قدر جانسوز اور غمناک تھے کہ اگر کوئی بھی شیعہ ان پر غور و فکر کرے تو اس کے پورے وجود پر غم و اندوہ طاری ہو جائے گا  اور اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جائیں گے ۔ کتاب تاریخ امام حسین علیہ السلام میں لکھتے ہیں :

... جب سيّد الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت امام زين العابدين عليه السلام کے خیمہ میں داخل ہوئے تو آپ چمڑے کی ایک بساط پر گرے ہوئے تھے ، اور آپ کی پھوپھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا آپ کی تیمارداری کر رہی تھیں ۔جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے اپنے والد بزرگوار کو دیکھا تو آپ نے اٹھنا چاہا ، لیکن آپ میں اتنی قدرت و توانائی نہیں تھی ۔

آپ نے اپنی پھوپھی سے کہا : « مجھے اپنے سینے سے لگا لیں ۔ پسر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آ رہے ہیں ۔ »

پس جناب زینب سلام اللہ علیہا ، امام سجاد علیہ السلام کے پیچھے بیٹھ گئیں اور آپ کو اپنے سینے سے ٹیک لگا کر بٹھا لیا ۔ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزند سے ان کی طبیعت کے بارے میں دریافت کیا تو امام زین العابدین علیہ السلام خدا کی حمد و ثنا بجا لائے ۔ اور پھر عرض کی: «اے بابا  جان ! آج آپ نے منافقوں کے اس ‏ملعون گروہ کے ساتھ کیا کیا ؟»

فرمایا : « اے میرے بیٹے ! قد استحوذ عليهم الشّيطان فأنساهم ذكراللَّه الملك المنّان ؛ ان لوگوں کو شیطان نے جکڑ لیا اور وہ خدا کے ذکر کو بھول گئے ہیں ، اور ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کی شعلے بھڑک اٹھے ہیں ، اور زمین ہمارے اور ان کے خون سے رنگین ہو گئی ہے ۔ »

امام علی بن الحسین علیہما السلام نے عرض کی : « اے بابا جان !میرے چچا عباس کہاں ہیں؟»

جب آپ نے یہ سوال کیا تو جناب زینب خاتون کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ اپنے بھائی کے مبارک چہرے کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ وہ کیا جواب دیں گے ؛ کیونکہ انہوں نے اس خوف سے ان کے چچا عباس کی شہادت کی خبر نہ دی کہ کہیں ان کی بیماری شدت اختیار نہ کر جائے ۔

پس سيّد الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: «بیٹا ! انہوں نے تمہارے چچا کو فرات کے کنارے شہید کر دیا ۔ »

على بن الحسين ‏عليهما السلام اس قدر روئے کہ بیہوش ہو گئے ، اور جب ہوش میں آئے تو آپ نے اپنے دوسرے چچاؤں کے بارے میں پوچھا : امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «وہ سب مارے گئے ہیں ۔ »

امام زین العابدین علیہ السلام نے جناب على اکبر ، حبيب بن مظاہر ، مسلم بن عوسجه اور زہير بن قين کے بارے میں پوچھا تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : « بیٹا ! یہ جان لو کہ ان خیموں میں میرے اور تمہارے سوا مردوں میں سے کوئی زندہ نہیں ہے ، تم نے جن کے بارے پوچھا ہے وہ سب  مارے گئے ہیں اور خاک پر پڑے ہیں ۔

امام زين العابدين علیہ السلام بہت روئے ، اور آُ نے اپنی پھوپھی جناب زینب سلام اللہ علیہا سے فرمایا:   پھوپھی جان ! مجھے ایک شمشیر اور عصا لا دیں ۔

آپ کے پدر گرامی نے فرمایا :  آپ ان کا کیا کریں گے ؟

عرض کی: عصا کو سہارا بنا کر شمشیر سے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دفاع کروں گا ، کیونکہ ان کے بعد زندگی میں کوئی خیر نہیں ہے ۔

امام حسین علیہ السلام نے امام سجاد علیہ السلام کو روکا اور انہیں اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا : بیٹا !تم میری سب سے طیب ذریت ہو ، اور میری سب سے افضل عترت ہو ، تم ان عیال اور اطفال پر میرے خلیفہ ہو ۔ کیونکہ یہ سب غریب ، تنہا اور بے یار و مدد گار ہیں ، انہیں یتیمی کے درد ، دشمن کے ظلم اور زمانے کی جفا کا  سامنا ہے ۔جب بھی وہ پریشان ہوں تو تم انہیں دلاسا دو ، ان کا سہارا بنو ، اور میٹھی باتوں سے انہیں تسلی دو ،  کیونکہ ان کے لئے مردوں میں سے تمہارے سوا کوئی باقی نہیں رہا جس سے وہ   اپنا درد دل اور اپنی تکلیف بیان کریں ، تم ان کا ساتھ دو ، اور وہ تمہارا ساتھ دیں ، وہ تم پر گریہ  کریں اور تم ان پر گریہ کرو ۔»

پھر آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بلند آواز سے کہا : اے زينب! اے امّ كلثوم! اے سكينه! اے رقيه! اے فاطمه! میری بات سنو اور جان لو کہ میرا یہ بیٹا تم پر میرا خلیفہ اور واجب الاطاعت امام ہے ۔

پھر فرمایا  : اے میرے بیٹے ! میرے شیعوں تک میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ  میرے بابا اس دنیا سے غریب گئے ، ان پر ندبہ کرو ، وہ شہید ہوئے ، ان پر گریہ کرو ۔

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :

اے مظلومو اور غریب الوطنو ! اس حالت کے باوجودتم میری مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ گے اور اس کے بعد تمہیں اسیر بنا لیا جائے گا ، اور تمہیں لوٹا جائے گا ، ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیرایا جائے گا،میرا سر اور میرے بھائیوں،بیٹوں،عزیزو اقارب اور میرے مددگاروں کے سر یزید مرتد کے دربار سے بطور ہدیہ لے  جائے جائیں گے ۔

جب جناب زينب کبری ، امّ كلثوم اور سكينه نے یہ باتیں سنیں تو بے تاب ہو گئیں اور اس طرح سے گریہ کیا کہ آسمان کے رہنے والے بھی آہ و نالہ کرنے لگے ۔ [1]، [2]

 


[1] ۔ موسوعة الإمام الحسين‏ عليه السلام، تاريخ امام حسين ‏عليه السلام: ۱۰ / ۶۱۰  .

[2] ۔...  فجاء إلى خيمة ولده زين العابدين  ‏عليه السلام، فرآه ملقي علي نطع من الأديم، فدخل‏ عليه و عنده زينب تمرّضه.

   فلمّا نظر عليّ بن الحسين ‏عليهما السلام أراد النّهوض، فلم يتمكّن من شدّة المرض، فقال ‏لعمّته: سنّديني  إلي صدرك فهذا ابن رسول الله قد أقبل،  فجلست زينب خلفه و أسندته ‏إلي صدرها، فجعل الحسين علیه السلام يسأل ولده عن مرضه و هو يحمد الله تعالى.

   ثمّ قال: يا أبتاه، ما صنعت اليوم مع هؤلاء المنافقين؟ فقال له الحسين‏ عليه السلام : يا ولدي، قد استحوذ عليهم الشّيطان فأنساهم ذكر الله، و قد شبّت الحرب بيننا و بينهم لعنهم الله حتّي فاضت الأرض بالدّم منّا و منهم، فقال عليّ‏ عليه السلام : يا أبتاه، و أين عمّي العبّاس، فلمّا سأله عن عمّه اختنقت زينب بعبرتها و جعلت تنظر إلي أخيها كيف يجيبه، لأنّه لم يخبره ‏بشهادة عمّه العبّاس خوفا لأن يشتدّ مرضه ‏عليه السلام .

فقال ‏عليه السلام له: يا بنيّ، إنّ عمّك قد قتل، قطعوا يديه علي شاطئ الفرات، فبكي عليّ ابن ‏الحسين‏ عليهما السلام بكاء شديدا حتّي غشي عليه، فلمّا أفاق من غشوته جعل يسأل عن كلّ ‏واحد من عمومته، و الحسين‏ عليه السلام يقول له: قتل.

فقال: و أين أخي عليّ، و حبيب بن مظاهر، و مسلم بن عوسجة، و زهير بن القين؟

فقال له: يا بنيّ، اعلم أنّه ليس في الخيام رجل حيّ إلّا أنا و أنت، أمّا هؤلاء الّذين تسأل عنهم ‏فكلّهم صرعي علي وجه الثّري، فبكي عليّ بن الحسين ‏عليهما السلام بكاء شديدا.

ثمّ قال عليّ لعمّته زينب: يا عمّتاه، عليّ بالسّيف و العصا، فقال له أبوه: و ما تصنع بهما، فقال:أمّا العصا فأتوكّأ عليها، و أمّا السّيف فأذبّ به بين يدي ابن رسول اللَّه، فإنّه لا خير في ‏الحياة بعده.

فمنعه الحسين ‏عليه السلام من ذلك و ضمّه إلي صدره و قال له: يا ولدي، أنت أطيب ذريّتي وأفضل عترتي، و أنت خليفتي علي هؤلاء العيال و الأطفال، فإنّهم غرباء مخذولون قد شملتهم الذّلّة و اليتم، و شماتة الأعداء و نوائب الزّمان، سكّتهم إذا صرخوا، و آنسهم إذا استوحشوا، وسلّ خواطرهم بلين الكلام، فإنّهم ما بقي من رجالهم من يستأنسون به ‏غيرك، و لا أحد عندهم يشكون إليه حزنهم سواك، دعهم يشمّوك و تشمّهم، و يبكواعليك و تبكي عليهم، ثمّ لزمه بيده صلوات اللّه عليه و صاح بأعلي صوته: يا زينب و ياأمّ كلثوم، و يا سكينة، و يا رقيّة، و يا فاطمة، اسمعن كلامي و اعلمن أنّ ابني هذا خليفتي‏ عليكم، و هو إمام مفترض الطّاعة، ثمّ قال له: يا ولدي، بلّغ شيعتي عنّي السّلام، فقل لهم:إنّ أبي مات غريبا فاندبوه و مضى شهيدا فأبكوه .(موسوعة الإمام الحسين ‏عليه السلام: ۱۰ / ۶۰۷).

ملاحظہ کریں : 153
آج کے وزٹر : 21371
کل کے وزٹر : 32446
تمام وزٹر کی تعداد : 128576610
تمام وزٹر کی تعداد : 89378257