حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

********************************************

۲۲ ذي الحجہ شهادت ميثم تمار (۶٠ هـ ق)

********************************************

کتاب ''الغارات''میں محمد بن حسن میثمی نقل کرتے ہیں:

میثم تمار حضرت علی علیہ السلام کے آزاد کردہ غلام تھے۔پہلے وہ بنی اسد کی ایک عورت کے غلام تھے امام علی علیہ السلام نے انہیں اس عورت سے خرید کر آزاد کر دیا اور ان سے پوچھا:تمہارا نام کیا ہے؟

انہوں نے کہا:سالم

امام علی علیہ السلام نے فرمایا:رسول خداۖ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے باپ نے عجم میں تمہارا جو نام رکھا تھا،وہ میثم تھا۔میثم نے کہا:جی ہاِں!خدا ،اس کے رسول اور آپ امیر المؤمنین نے سچ کہا ہے اور خدا کی قسم !میرا نام وہی میثم ہے۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:اپنے نام کی طرف لوٹ جاؤاور سالم کو چھوڑ دو اور ہم تمہاری کنیت ابو سالم رکھتے ہیں۔

احمد بن حسن کہتے ہیں:حضرت علی علیہ السلام نے انہیں علوم اور اسرار و رموز میں سے بہت سے رازوں سے آگاہ کیا تھا اور میثم ان میں سے کچھ بیان بھی کرتے تھے ۔

کوفہ کے کچھ لوگوں کو اس بارے میں شک و تردیدتھی۔وہ امام علی علیہ السلام پر خرافات کہنے والے اور تدلیس کرنے والے کا الزام لگاتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک دن امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے بہت سے اصحاب (کہ جن میں مخلص اور شک کرنے والے دونوں شامل تھے)کے سامنے جناب میثم سے فرمایا:اے میثم!میرے بعد تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور تختۂ دار پر لے جایا جائے گا،دوسرے دن تمہارے ناک اور منہ سے خون نکلے گا کہ جس سے تمہار داڑھی رنگین ہو جائے گی،تیسرے دن تم پر گرز ماراجائے گی جس سےتمہاری شہادت ہو جائیگے۔انتظار کرو اور جہاں تمہیں صلیب پر لے جایا جائے گا ،وہ جگہ عمر وبن حریث کے گھر کے دروازے کے ساتھ ہے اور تم ان دس افراد میں  سے دسویں ہو گے کہ جن کا تختہ زمین پرسے سب سے زیادہ نزدیک ہو گا۔میں تمہیں کھجور کا وہ درخت بھی دکھاؤں گا کہ جس پر تمہیں پھانسی دی جائے گی۔

دو دن کے بعد امام علی علیہ السلام نے میثم کو وہ درخت دکھایا،میثم اس درخت کے پاس آ کر نماز ادا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تم کجھور کے کتنے خوش نصیب درخت ہو کہ میں تمہارے لئے خلق کیا گیا ہوں اور تم میرے لئے پیدا کئے گئے ہو۔

جناب میثم امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس درخت کے پاس آتے  یہاں تک کہ اس کو کاٹ دیا گیا لیکن وہ اسی طرح اس درخت کے تنے کا خیال رکھتے اور اس کے پاس رفت و آمدکرتے تھے اور اس کی طرف دیکھتے تھے۔جب بھی عمرو بن حریث کو دیکھتے تھے تو اس سے کہتے کہ میں جلد ہی تمہارا ہمسایہ بن جاؤں گا۔میرے ساتھ اچھے پڑوسی کی طرح برتاؤ کرنا۔

عمرو بن حریث کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اس لئے وہ ان سے پوچھاکہ کیا آپ یہاں ابن مسعود کا گھر خریدنا چاہتے ہیں یا ابن حکیم کا گھر خریدنا چاہتے ہیں؟

جس سال میثم شہید ہوئے انہوں نے حج ادا کیا( ٦٠ھ) وہ مدینہ میں رسول اکرمۖ کی زوجہ جناب ام سلمہ کے پاس آئے  تو جناب ام سلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟انہوں نے کہا:میں عراقی شخص ہوں؟

ام سلمہ نے ان سے کہا:اپنا حسب و نسب بتاؤ؟

انہوں نے کہا:میں علی علیہ السلام کا آزاد کیا ہوا غلام ہوں۔

ام سلمہ نے کہا:کیا تم میثم ہو؟

کہا:ہاں میں میثم ہوں۔

جناب ام سلمہ نے کہا:سبحان اللہ؛خدا کی قسم!میں  نے بہت  مرتبہ رسول خداۖ کو آدھی رات کے وقت حضرت علی علیہ السلام سے تمہارے بارے میں  گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے۔

جناب میثم نے حضرت امام حسین بن علی علیہما السلام کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ نخلستان (مدینہ)میں ہیں۔

جناب میثم نے کہا:ان سے کہیں کہ میں آپ کو سلام کہنا چاہتا تھا اور ہم خدا کے سامنے آپس میں ملاقات کریں گے۔آج آپ کے دیدار کی فرصت نہیں ہے۔اور میں واپس آنا چاہتا ہوں۔

اس وقت ام سلمہ نے عطر منگوائی ،عطر لایا گیا توجناب میثم نے اس سے اپنی ڈاڑھی معطر کی ۔

جناب میثم نے کہا:بیشک جلد ہی یہ داڑھی خون سے خضاب ہو گی۔

جناب ام سلمہ نے پوچھا:کس نے تمہیں اس بارے میں خبر دی ہے؟

فرمایا:میرے آقا و مولا نے مجھے بتایا ہے۔

جناب ام سلمہ نے گریہ کیا اور فرمایا:وہ صرف تمہارے ہی آقا و مولا نہیں ہیں بلکہ وہ میرے اور تمام مسلمانوں کے آقا و مولا ہیں

پھر جناب میثم تمار نے انہیں الوداع کیا اور عراق واپس چلے گئے۔جب وہ کوفہ پہنچے تو انہیں  گرفتار کرکے کر عبداللہ بن زیاد کے پاس لے گئے ۔ابن زیاد سے کہا گیا کہ یہ ابوتراب کی نظر میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ برگزیدہ ہے۔

ابن زیاد نے کہا:تم لوگوں پر وای ہو؛یہ عجمی شخص؟!

کہا:ہاں۔

عبداللہ نے میثم سے کہا:تمہارا پروردگار کہاں ہے؟

جناب میثم نے کہا:تمہاری کمین گاہ میں ہے۔

ابن زیادنے کہا:ابوتراب کے بارے میں  اپنے عشق و محبت کے بارے میں بتاؤ؟

جناب میثم نے کہا:کسی حد تک ایسے ہی تھا اور اب تم کیا چاہتے ہو؟

ابن زیاد نے کہا:کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ جلد ہی جو کچھ ہو گا ،انہوں نے تمہیں اس سے آگاہ کیا ہے؟

جناب میثم نے کہا:امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے مجھے اس کے بارے میں بتایا ہے۔

ابن زیاد نے پوچھا:میں تمہارے ساتھ جو کچھ کروں گا،اس کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ہے؟

جناب میثم نے کہا:انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم مجھے پھانسی دو گے جب کہ میں دسواں شخص ہوں گا میرا پھانسی کا تختہ سب سے چھوٹا ہو گا اور میں سب سے زیادہ زمین سے نزدیک ہوں گا۔

ابن زیاد نے کہا:میں یقیناابوتراب کے قول کی مخالفت کروں گا ۔

میثم نے کہا:اے ابن زیاد!وای ہو تجھ پر!تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو حالانکہ انہوں نے رسول خداۖ کے قول سے اور رسول خداۖ نے جبرئیل اور جبرئیل نے خداوند سے یہ خبر دی ہے؟ تم کس طرح ان کی مخالفت کر سکتے ہو؟بیشک خدا کی قسم!کوفہ میں مجھے جس جگہ پھانسی دی جائے گی میں اس کے بارے میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔میں خدا کی وہ پہلی مخلوق ہوں کہ اسلام میں جس کے منہ پر اس طرح لگام لگائی جائے گی کہ جس طرح گھوڑے کو لگام لگائی جاتی ہے۔

اس گفتگو کے بعد ابن زیاد نے جناب میثم کو قید کر دیا اور مختار بن ابی عبید ثقفی کو بھی ان کے ساتھ قید کر دیا جب کہ وہ دونوں ابن زیاد کی قید میں تھے ،جناب میثم نے مختار سے کہا:تمہیں اس شخص کی قید سے رہائی مل جائے گی اور تم امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینیکے لئے قیام کرو گے اور ہم جس ظالم کی قید میں ہیں تم اسے قتل کرو گے اورتم اسی پاؤں(مختار کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا)سے اس کے چہرے اور گالوں کو کچلو گے۔انہیں دنوں میں ابن زیاد نے مختار کو قتل کرنے کے لئے زندان سے بلوایا لیکن اچانک یزید بن معاویہ کی طرف سے خط آیا جس میں ابن زیاد کو خطاب کیا گیا تھا اور اسے حکم دیا گیا تھا کہ مختار کو آزاد کر دیا جائے۔اس کی یہ وجہ تھی کہ مختار کی بہن عبداللہ بن عمر کی بیوی تھی۔اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ یزید سے مختار کی شفاعت کرے ،عبداللہ نے ایسے ہی کیا اور یزید نے اس کی شفارش مان لی اور مختار کی رہائی کا فرمان لکھ دیااور تیز رفتار سواری پر کوفہ بھیج دیا۔وہ خط اس وقت پہنچا کہ جب مختار کو قتل کرنے کے لئے باہر لایا جا رہا تھا۔اس طرح مختار کو رہا کر دیا گیا ۔ان کی رہائی کے بعدجناب میثم کو باہر لایا گیا تا کہ انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے۔

ابن زیاد نے کہا:ابوتراب نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے،وہی کروں گا۔

اسی وقت ایک شخص نے دیکھا اور ان سے کہا:اے میثم!یہ کام تمہیں بے نیاز نہیں کرے گا(امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی دوستی تمہارے کسی کام نہیں آئی)۔

میثم مسکرائے اور کہا:میں اسی تختۂ دار کے لئے خلق ہوا ہوں اور یہ میرے لئے بنایا گیا ہے ۔ جب میثم کوتختۂ دار پر لٹکایا گیا تو لوگ تختۂ دار کے اردگرد جمع تھے کہ جو عمر وبن حریث کے دروازے پر تھا۔عمرو نے کہا:میثم ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ میں تمہارا پڑوسی بنوں گا ۔عمرو نے اپنی کنیز کو حکم دیا کہ ہر شام میثم کے تختۂ دارکے نیچے جھاڑو لگائے اور پانی چھڑکے اوراگربتی جلائے۔وہ کنیزکافی دنوں تک تک ایسا ہی کرتی رہی۔جب جناب میثم کو تختۂ دار پر باندھ دیا گیا تھا تو  آپ بنی ہاشم کے فضائل اور بنی امیہ کی خباثتیں بیان کر رہے تھے ۔ابن زیاد کو اس بارے میں بتایا گیا کہ اس غلام نے تو تمہیں رسوا کر دیا ہے۔

ابن زیاد نے حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھ دی جائے ۔میثم کے منہ پر لگام باندھ دی گئی تا کہ وہ کوئی بات نہ کر سکیں اور وہ خدا کی سب سے پہلی مخلوق تھی کہ اسلام کے بعد جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔دوسرے دن ان کے منہ اور ناک سے خون جاری ہو گیا اور جب تیسرا دن ہوا تو ان کر گرزمارا گیا جس سے ان کی شہادت واقع ہو گئی۔امام حسین علیہ السلام کے عراق پہنچنے سے دس دن پہلے        ٦٠ھ میں میثم کی شہادت ہوئی.(1)

 


١۔پیشگوئی ہای امیرالمؤمنین علی علیہ السلام از فتنہ ھا و حوادث آیندہ:١۱٢

 

منبع: کتاب معاويه ج 1 ص 365

 

ملاحظہ کریں : 1421
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 18514
تمام وزٹر کی تعداد : 128815275
تمام وزٹر کی تعداد : 89497604