امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ

تفکر بصیرت اور دور اندیشی کا وسیلہ

انسان جس کام کو انجام دینا چاہے ، اگر اس کے بارے میں غور وفکر سے کام لے تو وہ اس کام کے نتیجہ تک پہنچ جائے گا اور اسے افسوس اور پشیمانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا ۔

حضرت علی (ع) اپنے دلنشین گفتار کے ضمن میں فرماتے ہیں :

'' اذا قدّمت الفکر فی جمیع افعالک ، حسنت عواقبک فی کل امرٍ ''

اگر ہر کام کو انجام دینے سے پہلے اس کے بارے میں سو چو تو ہر کام میں تمہاری عاقبت اچھی ہو گی ۔

کیو نکہ ہر کام کے بارے میں سوچنا اس کام کے بارے میں بصیرت کا باعث ہے ۔ اولیاء خدا ، عظیم لوگ اور جو بارگاہ خداوند متعال میں نعمت تقرب رکھتے اور خاندان وحی کے پُر فیض محضرمیں حضور رکھتے اور جوا ن بزرگان کے مدد گار اور اصحاب میں سے تھے ۔ وہ کسی کام کو سر انجام دینے سے پہلے تفکر کی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہوتے تھے ۔

جنہوں نے سر چشمہ ولایت سے آب حیات نوش کیا ، جنہوں نے خاندان وحی و عصمت کے تابناک انوار سے لو لگائی ، جنہوں نے اپنے دل و جان کو علوم و معارف اہلبیت  سے منور کیا ۔ انہوں نے خداوند کریم کی عظیم نعمت یعنی فکر سے استفادہ کیا اور وہ بصیرت اور دور اندیشی کے مالک بن گئے ۔

شناخت ، ہدایت ، روشن فکر اور حقائق امر سے آگاہی صرف سوچ و فکر سے ایجاد ہو تی ہے ۔

 حضرت امیرالمومنین   علی  (ع)  کے علمی بحر بیکراں میں سے ایک گوہر  نایاب  یہ  ہے :

 '' لابصیرة لمن لا فکر لہ '' ([1])

جو فکر نہیں رکھتا وہ روشن بینی و بصارت نہیں رکھتا  ۔

وہ بصیرت نہیں رکھتا اور اس کا قلب نورانیت سے  بہرہ مند نہیں ہے ۔ لہذا سوچ و فکر دل کے غبار و زنگ کو مٹاتی ہے اور دل کو پاک کر کے اس کی ظلمت و تاریکی کو نورانیت و بصیرت میں تبدیل  کرتی ہے ۔

جس طرح حُر ( رضوان اللہ علیہ ) حضرت فاطمہ زہرا کے احترام کا قائل ہونے کی وجہ سے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ حسین  سے جنگ و مقاتلہ کا اس کے لئے کیا نتیجہ بر آمد ہوگا حضرت زہرا صدیقہ کبریٰ کے احترام کے قائل ہونے کی وجہ سے اس کی سوچ و فکر نے اسے گمرا ہی و ضلالت اور ہلاکت سے نجات دلا کر کربلا کے شہداء کی صف میں قرار دیا ۔

حر نے تفکر و تأمل کی بنیاد پر امام حسین  (ع) کو جواب دیتے وقت غصے اور تندی کی بجائے تحمل و تواضع سے کام لیا ۔ اسی مناسبت سے امیر المو منین کا ایک کلام ہے کہ  جو انسانوں کی حیات کو نجات دیتاہے کہ جس میں  مو لائے کا ئنات فرماتے ہیں :

'' دع الحدّة و تفکر فی الحجة من الخطل ، تامن الزلل ''([2])

تند روی کو ترک کرو اور حجت و دلیل کی بناء پر تفکر کرو ، اور غلط و باطل بات کہنے سے پر ہیز کرو تاکہ لغزش سے آمان میں رہو   ۔

جناب  حر نے  بھی  اسی  طرح  کیا اور بصیرت و دور اندیشی سے اپنے مستقبل کو نجات دی جس طرح  حرنے غور و فکر سے کام لیا  ، کاش اسی طرح سقیفہ میں جمع ہونے والے  دنیا پرست بھی اپنی عاقبت کے بارے میں سوچتے تو چہرہ خورشید پر غم کے بادل نہ چھا جا تے ۔لیکن افسوس صد افسوس !

حضرت امیر المومنین  علی  (ع) بصیرت و دور اندیشی کو فکر کے آثار میں سے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

'' من فکّر ابصر العواقب ''([3])

جو فکر سے کام لے وہ امور کی عاقبت و نتیجہ سے آگاہ ہو جا تاہے۔

امیر المو منین  علی  (ع)   سے روایت ہے کہ آپ  نے  فرمایا :

'' من طالت فکرتہ ، حسنت بصیرتہ ''([4])

جس کی فکر طولانی و دقیق ہو اس کی بصیرت اچھی ہو جا تی ہے ۔ 

کیونکہ اگر فکر شخصی اغراض سے آلودہ نہ ہو تو یہ شفاف آئینہ کی مانند حقائق کو جلوہ گر اور آشکار کرتی ہے ۔

حضرت علی(ع) فرماتے ہیں :

'' الفکر مرآ ة صافیة '' ([5]

فکر ایک شفاف آئینہ ہے   ۔

جب فکر ایک شفاف و درخشاں آئینہ کی مانند آپ کو واقعیت سے آگا ہ کرتی ہے تو پھر روزہِ فکر سے استفادہ کریں ۔

 


[1] ۔  شرح غرر الحکم:ص ٦ص ٤٠١

[2] ۔ شرح غرر الحکم:ج ٤ص  ١٩

۔ شرح غرر الحکم:ج ٥ص  ٣٢٤[3]

[4] ۔ شرح غرر الحکم:ج ٥ص  ٧٢ ٢

[5]۔ ا ما لی الطوسی:ج ١ص  ١١٤ ،بحا ر الانوار:ج ٧٧ص  ٤٠٣

 

 

    بازدید : 7520
    بازديد امروز : 52356
    بازديد ديروز : 85752
    بازديد کل : 133119844
    بازديد کل : 92168105