امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
٣ ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

٣ ۔ خواہش پرستوں کی صحبت

خواہش پرست دوستوں کی ہمنشینی اور ایسے افراد کی کہ جنہیں اصلاً عالم معنی و آخرت سے کوئی سرو کار نہ ہو ، مو من افراد کے دلوں سے ایمان کو نکالنے اور گمرا ہ کرنے والے شیاطین کے حضور کا باعث بنتے ہیں ۔ ہوا و ہوس پرست جو مجلس تشکیل دیتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں تو یہ حق و حقیقت کو نابود کرنے کی ایک چال ہوتی ہے ابتداء اسلام سے اہل بیت  کے دشمنوں نے ایسی مجالس اور اجتماعات تشکیل دے کر اپنے شیطانی اور مذموم مقاصد حاصل کئے ۔

کائنات کے پہلے مظلوم حضرت امیر المومنین (ع) ایسے اجتماعات کو شیاطین کی مجمع گاہ قرار دیتے ہیں اور نہج البلاغہ میں اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں :

'' مجالسة اھل الھوٰی منسأة للایمان و محضرة للشّیطان''([2])

خواہش پرستوں کی ہمنشینی ایمان والی ہے اور شیاطین کو ہمیشہ سامنے لانے والی ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) خدا کے بہترین بندوں کی صفات میں سے ایک ہوس پرست لوگوں سے دوری کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

'' احبّ عباد اللّٰہ الیہ عبداً...خرج من صفة العمیٰ و مشارکة اھل الھوٰی ''([3])

خدا کے نزدیک اس کے محبوب ترین بندے وہ ہیں کہ جو کور دلی کو چھوڑ کر ہو ا وہوس پرست لوگوں کے ساتھ شرکت کرنے سے گریز کریں ۔

اہل فسق و فجور کے ساتھ اٹھنا ، بیٹھنا اور ان کے ساتھ انس نہ صرف عام لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے بلکہ کبھی یہ معاشرے کے نیک افراد کے کردار و رفتار پر منفی اثرات مرتب کر تا ہے ۔ ان سے نیک صفات سلب کر کے انہیں معاشرے کے شریر افراد کے ردیف میں قرار دیتا ہے  ۔

حضرت امیر المو منین (ع) فرماتے ہیں :

'' مجالسة الابرار للفجّار تلحق الا برار بالفجّار '' ([4])

نیک افراد کا  اہل فسق و فجور سے ہمنشینی ، انہیں فجار کے ساتھ ملحق کر دیتا ہے۔

دوسری روایت میں فرماتے ہیں :

'' ایّاک و مصاحبة الفسّاق ''(۱[5])

فساق افراد کی مصاحبت سے پر ہیز کرو  ۔

یہ خاندان عصمت و طہارت  کے فرامین و ارشادات کے کچھ نمونے ہیں کہ جو تمام انسانوں کی ہدایت کا سبب فراہم کر تے ہیں ۔

اس بناء پر جو لوگ حقیقت کی جستجو میں ہو اور عالی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہوں ، وہ ایسے افراد کی دوستی سے گریز کریں کہ جن کا ہدف و مقصد صرف مادیات تک پہنچنا ہو اور جوذکر اللہ اور یاد خدا سے غافل ہوں کیونکہ جن کا مقصد صرف دنیا کی زندگی ہو اور جو آخرت کے بارے میں فکر نہ کرتے ہوں ، وہ دوستی و رفاقت کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ خدا وند تعالیٰ قر آن مجید میں ارشاد فرما تاہے :

'' فَأعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ اِلاَّ الْحَیَاةَ اَلْدُّنْیَا ''([6])

لہذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منہ پھیرے اور زند گانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے ، آپ بھی  اس سے کنارہ کش ہو جائیں ۔

کیو نکہ اس گروہ کا ہدف صرف مال و دولت اور مادی دنیا سے استفادہ کرنا ہے وہ جتنا مال بھی جمع کر لیں ان کی ہوس میں اضافہ ہو تا رہتا ہے ۔ گویا وہ قارون کے خزانے کی تلاش میں ہیں قرآن اس واقعیت و حقیقت کی یوں تصریح کر تا ہے :

'' قَالَ اَلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَلْحَیَاةَ اَلْدُّنْیَا یَا لَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَااُوْتِیَ قَارُوْنُ اِنّہُ لَذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ''([7])

جن لوگوں کے دل میں زندگانی دنیا کی خواہش تھی ، انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کاش ہمارے پاس بھی یہ ساز و سامان ہو تا ، جو قارون کو دیا گیا ہے ۔ یہ تو بڑے عظیم حصہ کا ملک ہے۔

اگر فرض کریں کہ ایسے افراد کو قارون کا خزانہ بھی مل جائے تویہ پھر بھی بیشتر ثروت و قدرت کی جستجو کریں گے کیا ایسے خواہش پرست لوگوں کی دوستی صحبت انسان کو خدا سے نزدیک کر تی ہے یا فانی دنیا کی طرف لے جا تی ہے ؟

ایسے ا فراد اس ننگی اور تیز تلوار کی طرح ہیں کہ جو انسان کے پیکر وبدن سے اس کی جان کو  نکال دے ، اسی طرح یہ افراد بھی اپنے ہمنشینوں کی اہمیت اور ارزش کو ختم کر دیتے ہیں ۔

حضرت امام جواد(ع)  فرما تے ہیں : 

'' ایّاک ومصاحبة الشریر فانّہ کالسّیف الملول یحسن منظرہ و یقبح اثرہ ''([8])

شریر لوگوں کی صحبت و ہمنشینی سے پر ہیز کرو کیو نکہ وہ اس ننگی تلوار کی مانند ہے کہ جو ظاہراً اچھی ہے ، لیکن اس کا اثر قبیح ہے۔

 

با بدان کم نشین کہ بد مانی                      خو پذیر است نفس انسانی

من ندیدم سلامتی زخسان                      گر تو دیدی سلام ما برسان

یعنی برے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو، کیونکہ انسان کا نفس دوسروں کے اثرات کو قبول کرتا  ہے۔ میں نے برے اور کمینہ صفت افراد کے ساتھ بیٹھنے میں کوئی اچھائی اور فائدہ نہیں دیکھا اگر تم نے ایسا کوئی فائدہ دیکھا ہو تو اس تک ہمارا سلام پہنچانا۔

جس طرح اولیاء خدا اور بزرگان کی صحبت انسان کی عقل و فہم کی دلیل ہے ۔ اسی طرح  اشرار کی صحبت اس کے بر عکس ہے ۔

حضرت امیر المو منین (ع)  فرماتے ہیں :

'' لیس من خالط الا شرار بذی معقول ''([9])

اشرار افراد کی صحبت و ہمنشینی میں بیٹھنے وا لا صاحب عقل اور معقول فرد نہیں ہے۔

کیو نکہ شریر افراد کی ہمنشینی زندگی کی ارزشوں کو ویران کر دیتی ہے اور انسان کو اولیاء خدا کی نسبت سے بد گمان کر نے کا باعث بنتی ہے ۔

مہذب ، نیک اور صالح افراد کے بار ے میں حسن ظن گمراہ و شریر افراد کی صحبت کی وجہ سے ان افراد کے بار ے میں سو ء ظن میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ اس واقعیت کو حضرت امیر المو منین (ع) یوں بیان فرماتے ہیں :

'' صحبة الا شرار تورث سوء الظنّ با لا خیار ''([10])

شریر افراد کی صحبت ، اہل خیر افراد کے بارے میں سوء ظن کا باعث بنتا ہے ۔

کیو نکہ نہ صرف ان کے پاس تنہا رہنا اور ان سے ملا قات منفی اثرات رکھتی ہے بلکہ ان کی زہر آلود باتیں اور مسموم  افکار بھی گمراہی و ضلالت کا سبب بنتے ہیں

 


[2]۔ نہج البلاغہ خطبہ: ٨٦

[3]۔ نہج البلاغہ خطبہ: ٨٦

[4]۔بحار  الانوار:ج۷۴ص۱۹۷

[5]۔ شرح غرر الحکم:ج ٢ ص ٩ ٨ ٢

[6]۔ سورہ نجم آیت: ٩ ٢

[7]۔ سورہ قصص آیت: ٧٩

[8]۔ بحار الا نوار :ج٧٨ ص ٦٤ ٣

[9]۔ شرح غررالحکم :ج٥ ص ٨٦

[10]۔ بحار الانوار: ج٧٨ ص ٢

 

    بازدید : 7650
    بازديد امروز : 0
    بازديد ديروز : 69756
    بازديد کل : 134383475
    بازديد کل : 92947507