امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
١ ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

١ ۔ چھوٹی سوچ کے مالک افراد کی صحبت

           جو معا شرے میں اپنا مقام و مرتبہ اور شخصیت بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اطرافی اور دوستوں کی شناخت کی سعی و کوشش کریں کہ ان کا ماضی اور اس پر لوگوں کے اعتبار کو مد نظر رکھیں ۔ انجان دوست ، یاجو لوگوں میں اچھی صفات سے نہ پہچا نا جا تا ہو ، وہ نہ صرف مشکل میں انسان کی پشت پنا ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا ۔

           حضرت امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں :

           '' واحذر صحابة من یفیل رایہ و ینکر عملہ فانّ الصّاحب معتبر بصاحبہ ''([1])

           کمزور و ضعیف الرأی شخص کی ہمنشینی اور صحبت اختیار نہ کرنا کہ جس کے اعمال نا پسند یدہ ہوں کیو نکہ ساتھی کا قیاس اس کے ساتھی پر کیا جا تاہے۔

           کیو نکہ لوگ ظاہر کو دیکھ کر قضاوت کر تے ہیں ۔ ہمیشہ انسان کی اہمیت اس کے دوستوں کی اہمیت کے مانند ہو تی ہے ۔لہذا معاشرے میں بے ارزش اور ضعیف الرأی افراد کی دوستی سے دور رہیں تا کہ ان کے منفی روحانی حالات سے محفوظ رہیں ۔ نیز اجتماعی و معاشرتی لحا ظ سے بھی ا ن کے ہم ردیف شمار نہ ہوں ۔

           یہ کائنات کے ہادی و رہنما حضرت امیر المو منین علی  کی را ہنمائی ہے جس سے درس لے کر اور زندگی کے برنامہ میں اس پر عمل پیرا ہو کر آپ اپنے آئندہ کو درخشاں بنا  سکتے ہیں ۔ اپنے روزانہ کے برنامہ و اعمال اور رفتار کو تشیع کے غنی ترین مکتب کی بنیاد پر قرار دیں تا کہ ابدی سعادت حاصل کر سکیں۔

           ملاحظہ فرمائیں کہ سید عزیز اللہ تہرانی کس طرح چھوٹی فکر والے افراد سے کنارہ کش ہو کر عظیم معنوی فیض تک پہنچ گئے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نجف اشرف میں شرعی ریاضتوں مثلا نماز ، روزہ اور دعاؤں میں مشغول رہتا اور ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے غافل نہ ہوتا ۔ جب عید الفطر کی مخصوص زیارت کے لئے کربلا مشرف ہوا تو میں مدرسہ صدر میں ایک دوست کا مہمان تھا ۔ بیشتر اوقات حرم مطہر حضرت سید الشہداء امام حسین  (ع)میں مشرف ہو تا اور کبھی آرام و استراحت کی غرض سے مدرسہ چلاجاتا ۔

           ایک دن کمرے میں داخل ہوا تو وہاں چند دوست جمع تھے اور واپس نجف جانے کی باتیں ہو رہی تھیں ، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کب واپس جائیں گے ؟ میں نے کہا کہ آپ چلے جائیں میں اس سال خانہ خدا کی زیارت کا قصد رکھتا ہوں اور محبوب کی زیارت کے لئے پیدل جاؤں گا ۔ میں نے حضرت سید الشہداء  (ع)کے قبہ کے نیچے دعا کی ہے اور مجھے امید ہے کہ میری دعا مستجاب ہو گی ۔

           میرے دوست مجھے مذاق کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ سید ایسا لگتا ہے کہ عبادت و ریاضت کی کثرت سے تمہارا دماغ خشک ہو گیاہے ۔ تم کس طرح توشہ راہ کے بغیر بیابانوں میں ضعف مزاج کے ساتھ پیدل سفر کر سکتے ہو ۔ تم پہلی منزل پر ہی رہ جاؤ گے اور بادیہ نشین عربوں کے چنگل میں گرفتار ہو جاؤگے ۔

           جب ان کی سر زنش حد  سے بڑھ گئی تو میں غصہ کے عالم میں کمرے سے باہر چلا آیا اور شکستہ دل اور پُر نم آنکھوں کے ساتھ حرم کی طرف روانہ ہو گیا کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کر رہا تھا ۔ حرم میں مختصر زیارت کی اور بالا سر حرم مطہر کی جانب متوجہ ہوا جس جگہ ہمیشہ نماز اور دعا پڑھتا وہاں بیٹھ کر گریہ و توسل کو جاری  رکھا ۔

           اچانک ایک دست ید اللّٰہی میرے کندھے پر آیا ، میں نے دست مبارک کی طرف دیکھا وہ عربی لباس میں ملبّس تھے ۔ لیکن مجھ سے فارسی زبان میں فرمایا کہ کیا تم پیا د ہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہونا چاہتے ہو ؟ میں  نے عرض کیا ! جی ہاں ۔ انہوں نے فرمایا ! کچھ نان جو تمہارے ایک ہفتہ کے لئے کافی ہوں ؟ ایک آفتابہ اور احرام اپنے ساتھ لے کر فلاں دن فلاں وقت اسی جگہ حاضر ہو جاؤ اور زیارت و داع انجام دو تا کہ ایک ساتھ اس مقدس جگہ سے منزل مقصود کی طرف حرکت کریں ۔

           میں ان کے حکم کی بجا آوری و اطاعت کا کہہ کر حرم سے باہر آیا ۔ کچھ گندم لی اور بعض رشتہ دار خواتین کو دی کہ میرے لئے نان تیار کر دیں ۔ میرے تمام دوست نجف واپس چلے گئے اور پھر وہ دن بھی آگیا ۔ اپنا سامان لے کر معین جگہ پہنچ گیا ، میں زیارت وداع میں مشغول تھا کہ میں نے ان  بزرگوار سے ملاقات کی ، ہم حرم سے باہر آئے ، پھر صحن اور پھر شہر سے بھی خارج ہوگئے ۔ کچھ دیر چلتے رہے نہ تو انہوں نے مجھے اپنے شیرین سخن سے سر فراز فرمایا اور نہ ہی میں نے ہی ان سے بولنے کی جسارت کی کچھ دیر کے بعد پانی تک پہنچے ۔ انہوں نے فرمایا : یہاں آرام کرو۔ اپنا کھانا کھاؤ اور انہوں نے زمین پر ایک خط کھینچا اور فرمایا یہ خط قبلہ ہے نماز بجا لاؤ عصر کے وقت تمہارے پاس آؤں گا ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے میں وہیں ٹھہرا رہا ، کھا نا کھایا  ، وضو کیا اور پھر نماز پڑھی ۔ عصر کے وقت وہ بزرگوار تشریف لائے اور فرمایا : اٹھو چلیں ، چند گھنٹے چلنے کے بعد پھر اک جگہ اور پانی تک پہنچے ، انہوں نے پھر زمین پر خط کھینچا اور فرمایا : کہ یہ خط قبلہ ہے رات یہیں ٹھہرو ،میں صبح آؤ ں گا اور انہوں نے مجھے کچھ ذکر تعلیم فرمائے ۔  یہاں تک کہ سات دن اسی طرح گزر گئے دوران سفر نہ تو مجھے کوئی تکلیف ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تھکا وٹ ہوئی ۔

           ساتویں صبح انہوں نے فرمایا : اس پانی میں میری طرح غسل کرو اور احرام باندھ لو اور جس طرح میں لبیک کہوں تم بھی کہو ۔میں نے تمام امور میں اس بزرگوار کی پیروی کی ۔پھر کچھ دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑ کے پاس پہنچے میری سماعتوں سے کچھ آوازیں ٹکڑائیں ۔ میں نے عرض کی ! یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : اس پہاڑ پر چڑھنے کے بعد تم ایک شہر کو دیکھو گے ، اس شہر میں داخل ہو جاؤ پھر وہ مجھ سے جدا ہو گئے میں آگے بڑھا اور تنہا پہاڑ سے اتر کر ایک بڑے شہر میں داخل ہو گیا ۔

           وہاں لوگوں   سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے ؟

           انہوں نے کہا : مکہ اور وہ بیت اللہ الحرام ہے  ۔

           اس وقت میں اپنی حالت سے آگاہ ہوا ۔ میں جان گیا کہ میرا بخت بیدار تھا لیکن میں خواب غفلت میں تھا ۔ مجھے بہت افسوس ہو اکہ میں نے اس مدت میں ان بزرگوار کو کیوں نہیں پہچا نا اس وقت پشیمانی کا کوئی فائدہ نہیں تھا پشیمان ہوا اور عقل کو اپنے جہل کی وجہ سے شکوہ کیا۔ ([2])

           مر حوم سید عزیز اللہ تہرانی کے اس واقعہ پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں حاصل ہونے والی عظیم زیارت معنوی مسائل میں چھوٹی سوچ رکھنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کر نے کی وجہ سے نصیب ہوئی ۔ اگر وہ ان دوستوں کے وسوسوں اور باتوں میں آجاتے تو کبھی بھی اس عظیم زیارت سے مشرف نہ ہوتے ۔ ان کی انجام دی گئی ریاضت و زحمات نے چھوٹی فکر رکھنے والے دوستوں سے کنارہ کشی کے لئے آمادہ کیا اور اس کو اما م زمان  ارواحنا لہ فداہ کی زیارت اور ان کی ملاقات نصیب ہوئی ۔

 


[1]۔ نہج البلاغہ مکتوب: ٦٩

[2]۔ معجزات  وکرامات آئمہ اطہار علیہم السلام: ٠ ١١

 

 

    بازدید : 7652
    بازديد امروز : 14565
    بازديد ديروز : 109951
    بازديد کل : 132085886
    بازديد کل : 91562060