امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
شلمغانی کا عجیب عقيده

شلمغانی کے بارے میں کچھ مطلب

**************************************************

۲ اور ۲۷ ذی القعدہ ؛  شلمغاني کی ہلاکت ( کہ جس کے بارے میں توقيع مبارکہ میں لعن و برائت صادر ہوئی ہے) ، سنہ  ۳۲۳ ہجری

**************************************************

شلمغانی کا عجیب عقيده

   ابن اثير کا بیان ہے کہ: اس کا مذہب یہ تھا کہ وہ خداؤں کا خدا ہے اور وہ ازلى و قديم ، ظاہر و باطن اور رازق كامل ہے اور ہر معنی میں ہدف وہی ہے۔ وہ کہا کرتا تھا: ہر چیز میں خدا اس کی توانائی کے مطابق تجلی کرتا ہے اور اس نے ہر چیز کی ضد کو خلق کیا تا کہ اس کی ضد کو بہتر انداز میں پہچانا جا سکے اس لئے جب اس نے آدم کو خلق کیا تو اس میں حلول کیا۔ اس نے ابلیس میں بھی حلول کیا کیونکہ یہ دونوں ایک دوسری کے ضد ہیں اور حق کی دلیل خود حق سے افضل ہے اور کسی چیز کی ضد اسی چیز کی طرح اس چیز سے زیادہ نزدیک ہے۔ اور جب خدائے والا ناسوتی جسد میں حلول کرے اور کوئی قدرت و معجزہ آشکار کرے تو اس کے وجود کو بہتر بنا دیتا ہے۔

یہ افکار حلول اور قانون ضد کے بارے میں اسماعیلیوں کے عقائد سے شباہت رکھتے ہیں کہ جو امامت کی بحث بارے میں ہیں۔ شلمغانی کے عقائد نے حکومت کے کچھ بزرگوں کے دلوں کو موہ لیا۔ منجملہ محسن بن فرات کہ جو پیر اور شلمغانی کی وزارت کی تیسری وزارت میں تھا۔ناصر الدولہ نے بھی اس کا ساتھ دیا اور اس کے اس اقدام کو سراہا  اور اس زمانے میں اس کے اس عمل کو مخفی رکھا کہ جب وہ موصل میں تھا اور جب وہ بغداد گیا تو وہ اکابرین میں قرار پایا ۔ اور جب حسین بن قاسم  ( جو کچھ عرصہ تک مقتدر کا وزیر تھا) ، ابو على بن بسطام ، ابراهيم بن ‏ابى عون ، ابى شبيب زيات اور دوسرے افراد کے امور ابن مقلہ کی وزارت میں آشکار ہو گئے تو یہ سب لوگ روپوش ہو گئے۔

  راضى (329 - 322) کے ایّام میں شلمغانى کا خطرہ مزید بڑھ گیا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس کے پاس کچھ نوشتہ جات ملے کہ جس سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ خدائی کا دعویٰ کر رہا تھا اور اس کے پیرو کار اسے خدا سمجھتے تھے۔ ایک نوشتہ حسين بن قاسم کی تحریر تھی۔ شلمغانى نے بھی اعتراف كیا کہ یہ اس کے ساتھیوں کے خط ہیں۔ پھر‏ ابن ابى عون اور ابن عبدوس کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے شلمغانى کے ساتھ خليفه کے پاس لے جایا گیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ شلمغانى کو طمانچے ماریں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، لیکن جب انہیں مجبور کیا گیا تو ابن‏ عبدوس نے اس پر ہاتھ اٹھایا اور اسے طمانچہ مارا۔ لیکن جب ابن ابى عون نے شلمغانى کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس کا ہاتھ لرز رہا تھا لہذا اس نے شلمغانی کی داڑھی کو چوما اور کہا: اے خدا ، اے آقا اور مجھے رزق و روزی دینے والے!

   راضى نے شلمغانى سے کہا: تم کہتے ہو کہ تم خدائی کا دعویٰ نہیں کرتے تو پھر یہ کیا ہے؟

   اس نے کہا: ابن ابى عون یہ باتیں کرتا تھا نہ کہ میں۔ خدا جانتا ہے کہ میں نے کبھی اس سے نہیں کہا کہ میں خدا ہوں۔

   ابن عبدوس نے کہا: اس نے خدائى کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ کہا کرتا تھا: باب امام منتظر عليه السلام ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ وہ تقیہ کی وجہ سے یہ جاتیں کرتا تھا۔

   اس کے بعد چند مرتبہ اسے خلیفہ کے پاس لے کر گئے اور ہر بار وہاں فقیہ، قاضی اور سپاہ کے سربراہان موجود ہوتے۔ اور آخری دنوں میں فقہاء نے فتوی دیا کہ اس کا خون جایز ہے اور پھر شلمغانی اور ابن ابی عون کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا اور اس کے بعد انہیں جلا دیا گیا۔ اور یہ سنہ ۳۲۲ ہجری کا واقعہ ہے۔ (2279)


2279) تاريخ سياسى اسلام (دكتر حسن ابراهيم ‏حسن) : 3 / 577 .

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

 

بازدید : 1193
بازديد امروز : 63498
بازديد ديروز : 98667
بازديد کل : 133948581
بازديد کل : 92635491