امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
مجالس عزا میں شرکت کرنے کی اہمیت

مجالس عزا میں شرکت کرنے کی اہمیت

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے منعقد کی جانے والی مجالس مختلف پہلوؤں سے ایک  دوسرے سے تفاوت رکھتی ہیں اور  اسی طرح ان مجالس میں شرکت کرنے والے افراد کے درمیان بھی فرق ہوتا ہیں ۔

امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی زیارت کے لئے جانے والے افراد معنویت کو درک کرنے کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے اگر مرحوم علامہ امینی زیارت کو اپنی زندگی کا سب سے اہم ثمر قرار دیں، یا مرحوم آیت اللہ خوانساری امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزا میں شرکت کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیں تو ہمیں ان کے درمیان موازنہ نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ اگر مرحوم علامہ امینی زیارت کو اپنی زندگی کا سب سے اہم ثمر قرار دے رہے ہیں یا مرحوم آیت اللہ خوانساری مجالس عزا میں شرکت کو اپنی زندگی کے اہم ترین لمحات قرار دے رہے ہیں تو یہ ان بہت ہی عظیم نتائج کی وجہ سے ہے جو ان دو بزرگوں کو زیارت اور مجالس عزا سے حاصل ہوئے ہیں ۔

اس بنا پر ہمارے بزرگوں نے جو کچھ بیان کیا ہے ، ہمیں اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ ہمیں ان کی باتوں کو سننا چاہئے اور ان کا یقین کرنا چاہئے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی ان بزرگوں کی طرح زیارت کی اہمیت ، عزاداری کی عظمت اور ان کے اثرات کو درک کرنا چاہیں تو ہمیں بھی انہی کی طرح اپنی زندگی کے امور استوار کرنے چاہئیں ۔ نیز ان بزرگوں نے اپنی زندگی میں درپیش آنے والی مشکلات اور امتحانات کا بخوبی سامنا کیا اور ان میں سرخرو ہوئے  ، اسی طرح ہمیں بھی آخر الزمان کے فتنوں ، مشکلوں اور پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے اور ان میں کامیاب ہونا چاہئے ۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگ جس ہدف اور مقصد تک پہنچے ہیں ، ہم بھی وہاں تک پہنچنا چاہتے ہیں ، لیکن جس راہ  پر چل کر  وہ اس ہدف تک پہنچے ، ہم اس راہ پر نہیں چلنا چاہتے ۔

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی مجالس عظمت اور ان میں شرکت کرنے کے اہمیت سے آگاہ ہونے کے لئے اس واقعہ پر توجہ کریں :

مرحوم علامہ مدّاح اپنے محفوظات میں لکھتے ہیں :

تہران کے بزرگ علماء میں سے ایک شیعوں کے بلند پایہ مرجع آیت اللہ العظمیٰ حاج سید احمد خوانساری أعلی اللہ مقامہ تھے ۔ مرحوم آیت اللہ العظمی شیخ عبد الکریم حائری کے زمانے سے ہی آپ بہت زیادہ اہم شخصیت تھے اور تمام مراجع آپ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے ۔ میں بھی اس بزرگ ہستی سے بہت عقیدت رکھتا تھا ۔ میں سالہا سال ( تقریبا! دس سال تک) سے جمادی الاوّل ، جمادی الثانی اور رجب کے مہینوں میں نماز کے بعد  حاج سید عزیز اللہ کی مسجد میں مجلس پڑھتا تھا  ،اسی اہم امر کی بدولت مجھے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے کام کرنے ، بہت زیادہ اشعار حفظ کرنے اور اپنی ناتوانی اور معمولی  صلاحیت کے باوجود  بی بی دو عالم کے بارے میں اشعار کہنے کی توفیق میسر آئی ۔ مجھے اس مجلس سے اس قدر محبت اور عقیدت تھی کہ حتی میں عاشورا کے دن (دوسری جگہ ) مجالس چھوڑ کر حاج سید عزیز اللہ کی مسجد میں ظہر عاشورا کی مجلس پڑھنے کے لئےآتا تھا ۔

میں جن ایّام میں بیمار تھا اور میری حالت بہت زیادہ خراب تھی تو اس مرحوم کے فرزند (حجۃ الاسلام و المسلمین حاج سید جعفر خوانساری ) میری عیادت کے لئے آئے اور انہوں نے کہا: بستر بیماری پر اسی حالت میں میری مادر گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے توسل کرو  اور اپنی شفا کے لئے ہمارے درمیان یہاں ہی مجلس پڑھو ۔

  وہ بزرگوار سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی مجلس میں ہر کسی کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ ہر شخص کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے اور اس کے سامنے ادب کا اظہار کرتے تھے ۔

میں اس بندۂ خدا کی بیماری کے ایّام میں چند دنوں کے بعد ایک بار ان کی عیادت کے لئے جایا کرتا تھا اور ان کے سامنے مصائب پڑھا کرتا تھا ۔ میں ان کی وفات سے تین دن پہلے ان سے ملاقات کے لئے گیا تو انہوں نے خواتین سے کہا کہ پردہ کے پیچھے بیٹھ جاؤ  اور پھر اپنی عبا اوڑھ  کر باادب طریقے سے بیٹھ گئے ۔ تین دن کے بعد مجھے فون پر بتایا گیا کہ آقا اس دنیا سے چلے گئے ہیں ۔ میں ان کے غسل کی رسومات میں موجود تھا ، انہیں غسل دینے  کے بعد ان کے فرزند نے روتے ہوئے مجھے بتایا : جب آپ چلے گئے تھے تو آقا نے مجھے آواز دی اور کہا : جعفر ! میں اس دنیا سے خالی ہاتھ جا رہا ہوں ، میں اپنے ساتھ صرف ایک چیز لے کر جا رہا ہوں اور وہ امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی مجالس میں میری حاضری ہے ۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ بعض علماء نے  جن کے کامل تقویٰ  کے بارے میں نظریہ پیش کیا ہے ، جن کے بارے میں خدا نے یہ چاہا کہ سعودی عرب میں چاند ان کے فتویٰ  کے مطابق  ہو ، اور جب وہ تہران میں تھے تو جنگ کے ایّام میں کوئی میزائل بھی شہر میں نہیں گرا ، لیکن اس شخصیت  کا یہ کہنا  ہے کہ میں (دنیا سے ) خالی ہاتھ جا رہا ہوں ! پس افسوس ہے ہم پر !

خدایا !ہمارے ساتھ اپنے عدل سے نہیں بلکہ اپنے بے انتہا فضل سے پیش آنا ۔ خدایا ! اہل بیت علیہم السلام پر اپنے بیکراں لطف سے اپنے اس بوڑھے خادم کو بخش دے ، اور لوگوں کے حسن ظن کے مطابق  اس  حقیر سے پیش آ  نا، اور قیامت میں ہمیں اہل بیت علیہم السلام اور ان کے محبوں کے سامنے شرمندہ نہ ہونے دینا ؛ یا ارحم الراحمین ۔ [1]

اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور تمام اہل بیت علیہم السلام کی مجالس میں کیسے کیسے اسرار  پائے جاتے ہیں  کہ مرحوم آیت اللہ خوانساری مجالس عزا میں شرکت کو اپنی زندگی کا تمام سرمایہ قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نے کن امور کی بنا پر  عزاداری کے یہ حیرت انگیز آثار درک  کئے تھے ؟

اس سوال کے جواب کے لئے ہم مجالس  کے اسرار میں ایک اہم سر و راز کو بیان کرتے ہیں ، جو کائنات میں اہل بیت علیہم السلام کے مصائب پر غور و فکر کرنا ہے :

 


[1] ۔ خاطرات شصت سال خدمت گذاری در آستان اھل بیت علیہم السلام : ۱۵۸.

بازدید : 170
بازديد امروز : 68156
بازديد ديروز : 84782
بازديد کل : 134548815
بازديد کل : 93030689