امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حجّة الوداع میں خانۂ خدا کے پاس اپنے بعد کے حالات بیان فرمانا

۲۶ ذیقعدة الحرام ؛  پیغمبر اکرم صلي الله عليه و آله و سلم کی اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ سے حجّة الوداع  کی ادائیگی کے لئے روانگی ( سنہ ۱۰  ہجری)

 ۳ یا ۴ ذی الحجة  الحرام  ؛ حضرت رسول اكرم صلی الله علیه و آله و سلم کا  حجة الوداع  کے سفر میں مکہ المکرمہ  پہنچنا ( سنہ ۱٠  ہجری)

**********************************************

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حجّة الوداع

میں خانۂ خدا کے پاس اپنے بعد کے حالات بیان فرمانا

     کتاب « فضائل اهلبیت علیهم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ » میں یوں وارد ہوا ہے :

  بہترین کتاب «مكارم الأخلاق»  کے مؤلف جليل ‏القدر عالم جناب طبرسى ‏رحمه الله صاحب اپنی كتاب «جامع ‏الأخبار» میں لکھتے ہیں: جابر بن عبد اللَّه انصارى کہتے ہیں:

جس سال پیغمبر خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے حجّة الوداع انجام دیا تو میں بھی آنحضرت کا ہمسفر تھا۔ پیغمبر خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے اعمال حج ختم کئے اور اس کے بعد خانۂ خدا کو الوداع کہنے کے لئے کعبہ کے قریب تشریف ل ائے اور اس دوران کعبہ کے ارد گرد ایک دائزہ بن گیا۔ کسی نے بلند آواز سے صدا دی۔ مسجد الحرام اور بازار میں موجود سب لوگ یہ آواز سن کر اکٹھے ہو گئے ۔

رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمایا:

(اے لوگو!) سنو! جو کچھ میرے بعد واقع ہو گا میں وہ آپ لوگوں کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں، ھاضرین یہ بات غائبین تک پہنچا دیں۔

اس کے بعد پيغمبر خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے اس طرح سے گریہ فرمیا کہ آنحضرت کے گریہ کرنے سے تمام لوگوں نے بھی گریہ کرنا شروع کر دیا۔ جب آنحضرت کا گریہ ختم ہوا تو آپ نے فرمایا:

خدا آپ لوگوں پر رحمت کرے ! آج سے ایک سو چالیس سال بعد تک آپ لوگوں کی مثال اس پٹے کی ہے جس پر کانٹے نہ ہوں ، اور اس کے بعد دو سو سال تک اس پٹے کی مثال ہے کہ جو خار دار ہو۔ اور اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ پتہ کانتوں کے بغیر ہو جائے گا ، اس زمانے میں ظالم و ستم گر بادشاہ یا کنجوس و بخیل ثروت مند یا مال و دولت کے پجاری عالم یا جھوٹے فقیر یا بوڑھے زناکار یا بدکار بچے اور یا احمق عورت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا۔

اس کے بعد پیغمبر خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے گریہ کیا۔ سلمان فارسى‏ رحمه الله اٹھے اور عرض کی: اے رسول خدا ! کس زمانے میں ایسا ہو گا؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

يا سلمان! إذا قلّت علماؤكم، وذهبت قرّاؤكم، وقطعتم زكاتكم وأظهرتم‏ منكراتكم، وعلت أصواتكم في مساجدكم، وجعلتم الدنيا فوق رؤوسكم، والعلم تحت أقدامكم، والكذب حديثكم، والغيبة فاكهتكم، والحرام غنيمتكم، ولايرحم كبيركم صغيركم، ولايوقّر صغيركم كبيركم، فعند ذلك تنزل اللعنة عليكم، ويجعل بأسكم بينكم، وبقي الدين بينكم لفظاً بألسنتكم.

اے سلمان ! یہ وہ زمانہ ہو گا کہ جب علماء کم ہو جائیں گے ، آپ کے قاری ختم ہو جائیں گے، لوگ اپنی زکات ادا نہیں کریں گے، برے کام عام ہو جائیں گے، مسجدوں سے تمہاری آوازیں بلند ہوں گی، دنیا کو اپنے سروں پر بٹھائیں گے، علم کو پاؤں تلے روندیں گے، تمہاری باتیں جھوٹی ہوں گی، تمہاری گفتگو کی حلاوت اور مٹھاس ختم ہو جائے گی، جو مال اکٹھا کرو گے وہ حرام کے ذریعہ ہو گا، بڑے بچوں پر رحم نہیں کریں گے، اور چھوٹے بڑوں کا احترام نہیں کریں گے۔

 یہ وہی زمانہ ہے جب تمہارے اوپر لعنت نازل ہو گی، اور تمہاری سختی تمہارے درمیان آ جائے گی، اور تمہارے درمیان دین صرف لقلقہ زبانی بن جائے گا ، جب یہ علامتیں دیکھو گے تو اس وقت سرخ آندھی یا مسخ ہونے یا پتھروں کی بارش کا انتظار کرو ۔

قرآن یہ یہ آٰت اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے:

«قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعاً وَيُذيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآياتِ لَعَلَّهُمْ ‏يَفْقَهُونَ»(1)؛

«کہہ دیجئے کہ وہی اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے یا پیروں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا ایک گروہ کو دوسرے سے ٹکرا دے اور ایک کے ذریعے دوسرے کو عذاب کا مزہ چکھا دے، دیکھو ہم کس طرح آیات کو پلٹ پلٹ کر بیان کرتے ہیں کہ شاید ان کی سمجھ میں آ جائے» ۔

اسی دوران اصحاب کی ایک جماعت کھڑی ہوئی اور اس نے عرض کیا: اے رسول خدا! یہ سب کچھ کب واقع ہو گا؟

رسول خدا صلى الله عليه و آله و سلم نے فرمایا:

جب لوگ نماز پڑھنے میں تأخیر کریں گے اور شہوت کے پیروکار ہوں گے، شراب خواری میں مصروف ہوں گے ، ماں باپ پر ظلم و ستم کیا جائے گا، جب مال حرام کو غنیمت اور زکات ادا کرنے کو نقصان اور گھاٹا شمار  گیا جائے گا، اس زمانے میں مرد اپنی عورتوں کی اطاعت کریں گے، پڑوسیوں کو اذیت دیں گے اور قطع رحم کریں گے۔

بزرگوں میں مہر و محبت ختم ہو جائے گی اور بچوں میں حیاء کم ہو جائے گی ، عمارتیں مضبوط اور محکم بنائیں گے ، غلاموں اور لونڈیوں پر ظلم کریں گے، خواہشات نفس کے مطابق گواہی دیں گے، عدل و انصاف کرتے وقت ظلم و ستم کریں گے، بیٹا باپ کو گالیاں دے گا، بھائی بھائی سے حسد کرے گا، شریک کار معاملات میں خیانت کریں گے، وفا کم ہو جائے گی، زنا عام ہو جائے گی، مرد خود کو عورتوں کے ملبوسات سے مزین کریں کریں گے اور عورتوں کے سروں سے حیاء کا پردہ ختم ہو جائے گا۔

دلوں میں تکبر اور خود خواہی ایسے راسخ ہو جائے گی کہ جس طرح زہر بدن میں پھیل جاتا ہے ، جرم اور گناہ عام ہو جائیں گے اور واجبات خدا کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔

اس زمانے میں مال و دولت کی وجہ سے ایک دوسرے کی تعریف کریں گے اور اپنے اموال کو گانے بجانے پر خرچ کریں گے ، لوگ دنیا میں سرگرم رہیں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے، تقویٰ اور پرہیزگاری ختم اور لالچ میں اضافہ ہو گا۔

اس زمانے میں مؤمن ذلیل و خوار اور منافق صاحب عزت ہو گا، ان کی مسجدیں اذان کی وجہ سے آباد لیکن ان کے دل ایمان سے خالی ہوں گے، قرآن کو حقییر سمجھیں گے، مون کو ہر طرف سے لوگوں کی ذلت و خواری ملے گی۔

وہ زمانہ ایسا ہو گا کہ ان کے چہرے آدمیوں کے لیکن دل شیاطین کے ہوں گے، ان کی باتیں شہد سے زیادہ میٹیں ہوں گی لیکن ان کے دل کوڑتمے سے بھی زیادہ کرے ہوں گے، وہ انسانوں کے لباس میں بھیڑیئے ہوں گے ۔ اس دن خداوند متعال انہیں ہر روز خطاب کرتے ہوئے فرمائے گا۔ کیا مجھ سے غرور کر رہے ہو؟ کیا مجھ پر تکبر کر رہے ہو:

«أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنا لاتُرْجَعُونَ»(2)؛

«کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں لائے جاؤ گے؟»

مجھے میری عزلت و جلال کی قسم ! اگر وہ لوگ نہ ہوتے جو مخلصانہ طور پر میری عبادت کرتے ہیں تو ان لوگوں کو چشم زدن کے برابر بھی امان نہ دیتا ، اگر میرے پرہیزگار بندے نہ ہوتے تو آسمان سے ایک قطرہ بارش نہ برستا اور ایک سبز پتے تک نہ اگاتا۔

فواعجباه! لقوم آلهتهم أموالهم، وطالت آمالهم، وقصرت آجالهم، وهم ‏يطمعون في مجاورة مولاهم، ولايصلون إلى ذلك إلّا بالعمل، ولا يتمّ العمل إلّا بالعقل.

کتنی تعجب انگیز بات ہے کہ ان لوگوں کی جن کا معبود ان کے اموال ہیں، ان کی آرزوئیں طویل اور عمریں قلیل ہیں اور اس کے باوجود وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مولا کی حفاظت میں رہیں ، حالانکہ عمل کے سوا اس مقام و مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے ، جب کہ عقل کے بغیر عمل کامل نہیں ہوتا۔ (3)


1) سورۀ أنعام، آيت 65.  

2) سورۀ مؤمنون، آيت 115.

3) جامع الأخبار: 395 ح 1100، بحار الأنوار: 262/52 ح 148.

 

منبع : فضائل اہلبیت علیہم السلام کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ: 2 / 820 ح 1191

 

 

 

 

بازدید : 1318
بازديد امروز : 59285
بازديد ديروز : 98667
بازديد کل : 133940156
بازديد کل : 92631279