الإمام الصادق علیه السلام : لو أدرکته لخدمته أیّام حیاتی.
عدالت کی وسعت

عدالت کی وسعت

آپ کو معلوم ہے کہ عصرِ ظہور ،عدل و عدالت سے سرشار زمانہ ہے۔جیسا کہ ہم نے خاندانِ عصمت و طہارت  کے فرامین سے نقل کیا کہ اس زمانے میں ظلم و ستم کے آثار باقی نہیں رہیں گے۔

اس وقت ستمگروں کی طرف سے لوگوں پر لادے گئے ہر قسم کے مسائل اور فقر و نیاز نہ صرف برطرف ہوجائیں گے بلکہ ان کا جبران بھی ہوگا۔

پوری دنیا میں عدل کا بول بالا ہوگا عدل کا پرچم بلند اور ظلم کا پرچم سرنگوں ہوگا۔تمام مظلومان ِ عالم ظالموںکے شر سے نجات پائیں گے ۔حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی عدلانہ حکومت پوری دنیا کے لوگوں کے سروں پر رحمت و عدالت کا سایہ کرے گی۔

 اس وقت صرف حکومتی اداروں میں ہی نہیں بلکہ بازاروں ،شاہرائوں ،تجارتی مراکز بلکہ گھروں کے اندر بھی عدل و عدالت قائم ہوگی اور ظلم و ستم کا نام و  نشان مٹ جائے گا۔

عدالت ایک قوی انرجی کی طرح ہر جگہ حتی ہر گھر میں سرایت کرجائے گی ۔ جس طرح سردی اور گرمی ہر جگہ کواپنے احصارمیں لے لیتی ہے۔اسی طرح آنحضرت کی عدالت بھی ایک عظیم  طاقت کی طرح ہرجگہ پھیل جائے گی۔اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اما واللّہ لیدخلن علیھم عد لہ جوف بیوتھم کما یدخل الحرّ و القرّ  '' ([1])

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی عدالت حتمی اور قطعی طور پر گھروں میں داخل ہوجائے گی جس طرح گرمی و سردی داخل ہوتی ہیں۔

اب ممکن ہے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ عدالت ،پوری دنیا کواپنی  آغوش میں لے لے کہ جس طرح انرجی و حرارت ہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے؟یہ کس طرح ممکن ہے کہ پوری دنیا میں عدالت قائم ہوجائے کہ پھر ظالموں کا زور اور ظلم و ستم صفحہ ہستی سے مٹ  جا ئے؟ اگر اس زمانے  کے لوگ بھی ہمارے زمانے والوں کی طرح ہوں تو کیا ہر جگہ عدالت کا حاکم ہونا ممکن ہے؟کیا ممکن ہے کہ ظالموں اور ستمگروں کا زور اور دہشت دوسروں کو اپنی زنجیروں میں نہ جکڑے؟

اس کے جواب میں یوں کہیں کہ جب تک بشریت اپنی اوّلی اور سالم فطرت کی طرف نہ لوٹے اور اس کی عقل و فکر تکامل کی حدوں تک نہ پہنچے،تب تک یہ ممکن نہیں کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور دنیا میں ظلم و ستم کی جگہ عدل و انصاف قائم ہونے دیں۔

 اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) حکومتِ عدلِ الٰہی کو استقراردینے کے لئے تمام انسانوں کے وجود میں اساسی تحول ایجاد کریں گے جس سے بشریت تکامل کی طرف گامزن ہوکر عدل و انصاف کا رخ کرے گی اور ظالموں کے وجود اور ان کے مظالم سے متنفر ہوجائے گی۔

یہ اساسی تحوّلات فقط اس صورت میں متحقق ہوسکتے ہیں کہ جب انسانوں کے وجود میں تکامل ایجاد ہو اور تکامل کے ایجاد ہونے سے ان کی روحانی و فکری اور عقلی قدرت میں اضافہ ہوگا۔پھر وہ نفس امّارہ  اور نفسانی خواہشات کی مخالفت سے تکامل کی طرف گامزن ہوں گے۔

 


[1]۔ الغیبة مرحوم نعمانی :٢٩٧

 

 

    زيارة : 7327
    اليوم : 48615
    الامس : 98667
    مجموع الکل للزائرین : 133918817
    مجموع الکل للزائرین : 92620608