امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
٣ ۔ تہذیب و اصلاح نفس

٣ ۔ تہذیب و اصلاح نفس

نفس کی اصلاح کے ذریعہ نفسانی اور شیطانی خطرات سے عالم یقین تک پہنچیں اور آب حیات سے سیراب ہونے کے بعد اپنے دل و جان کو اس کی طراوت سے جلا بخشیں ۔

کیو نکہ یقین انسان کو اصلی منزل و ہدف تک پہنچا تا ہے ۔ آپ اپنے نفس کی اصلاح سے یقین میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ امام مو سی بن جعفر(ع)  نے اس کی تصریح فرمائی ہے :

'' باصلاحکم انفسکم تزدادوا یقینا و تربحوا نفیساً ثمیناً رحم اللّٰہ امرئً ھمَّ بخیرٍ فعملہ او ھمَّ بشرٍّ فارتدع عنہ ثمّ قال : نحن نؤیّد الّروح بالطّاعة للّٰہ والعمل لہ '' ([1])

اپنے نفس کی اصلاح کے ذریعہ اپنے یقین میں اضافہ کریں اور قیمتی سرمایہ و نفع حاصل کریں . خداوند اس شخص پر رحمت کرے کہ جو اچھے کام کی ہمت کرے اور اسے انجام دے یا برے کام کا ارادہ کرے لیکن اپنے آپ کو اس کے انجام دینے سے روکے ۔ پھر آنحضرت نے فر مایا : ہم اہل بیت خدا کی اطاعت اور اس کے لئے عمل سے روح کی تائید کر تے ہیں ۔

پس نفس کی اصلاح سے انسان کے یقین میں اضافہ ہو تا ہے کیو نکہ یقین کا مخالف یعنی شک شیطان کے وسوسہ کی وجہ سے پیداہو تا ہے ۔ اصلاح نفس کے ذریعہ حدیث نفس اور وسوسہ شیطان مغلوب ہو جاتے ہیں ۔

اہل بیت  علیہم  السلام  کے ارشادات و فرامین سے یوں استفادہ کر تے ہیں کہ حالت یقین اور اصلاح نفس کے درمیان ملازمہ ہے ۔ یعنی اصلاح نفس کا لازمہ حالت یقین کی افزائش ہے اور یقین محکم کے وجود کا لازمہ اصلاح نفس ہے ۔

پس نفس کی اصلاح سے آپ اپنے یقین میں اضافہ کر سکتے ہیں اسی طرح یقین کو تقویت دینے سے آپ اپنے باطن اور نفس کو پاک بنا سکتے ہیں ، نفس کی پاکیزگی اور یقین کی پیدائش کے بعد روح کی بزرگ قدرت سے استفادہ کریں ۔

جن افراد سے کرامات اور غیر معمولی امور ظاہر ہوئے وہ یقین کی عظیم نعمت سے بہرہ مند تھے اس حقیقت کی شہادت کے طور پر ہم ایک واقعہ نقل کر تے ہیں   مرحوم شیخ حسن علی اصفھانی نقل سے ہوا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب میں حج کے سفر کے دوران حجاز میں داخل ہوا تومیرے پاس پیسے نہیں تھے مکہ میں خاوہ(ٹیکس) کے عنوا ن سے ہر مسافر سے کچھ پیسے وصول کر تے تھے کچھ لوگ اس عنوان سے پیسے نہیں دینا چاہتے تھے لہذا ہم مجبوراً جدہ کے راستے عازم مکہ ہوئے۔ راستے میں حکومت کے مامورین سے سامنا ہوا اور انہوں نے ہم سے کہا کہ جب تک  خاوہ  یاٹیکس کو وصول کرنے پر ما مور افراد نہ آجائیں تم سب اسی جگہ ٹھہروا اور پیسے دینے کے بعد آگے جاؤ ور نہ آپ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے ۔

سب لوگ خر ما کے درخت کے سایہ میں مامورین کے انتظار میں بیٹھ گئے وہاں پر موجود سب لوگوں نے پیسے جمع کئے اور مجھ سے بھی کہا کہ آپ بھی پیسے دیں میں نے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ اگر تم یہ طمع کر رہے ہو کہ ہم تمہیں پیسے دیں گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے ہم تمہیں پیسے نہیں دیں گے اوراگر پیسے نہیں دو گے تو تم خا نہ خدا کی طرف نہں جا سکتے . میں نے ان سے کہا کہ مجھے تم سے کوئی طمع نہیں ہے بلکہ خدا سے طمع کر رہا ہوں کہ جو میری مدد کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ عرب کے اس بیابان  میں خدا کس طرح تمہاری مدد کرے گا ؟

میں نے کہا کہ رسول ۖسے ایک حدیث روایت ہوئی ہے کہ جو لوگوں کی خدمت کرے اور ان سے کوئی اجرت نہ لے خداوند بیابان میں گرفتار ی کی حالت میں اس کی اس طرح سے مدد کرے گا اور موانع کو بر طرف کر دے گا ۔

ایک گھنٹہ کے بعد انہوں نے اپنے سوال کو تکرار کیا میں نے بھی وہی جواب دیا تو ان لوگوں نے تمسخر سے کہا کہ معلوم ہو تا ہے کہ جیسے شیخ نے حشیش پی ہو کہ جس کی وجہ سے ایسی باتیں کر رہا ہے ۔ ورنہ بیابان میں ہمارے علاوہ اور کون ہے کہ جو اس کی مدد کرے لیکن ہم بھی اس کی مدد نہیں کریں گے۔

کچھ دیر گزرنے کے بعد دور سے گرد اڑتی دکھائی دی میں نے اپنے ساتھ موجود لوگوں سے کہا کہ یہ میرے طرف آنے والی خیر ہے . انہوںنے میرا مذاق اڑایا چند لمحوں کے بعد اس گرد سے دو سوار نمودار ہوئے وہ گھوڑے کو ہاتھ سے کھینچ کر لا رہے تھے اور وہ میرے قریب آگئے ۔

ان میں سے ایک نے کہا کہ تم میں سے شیخ حسن علی اصفہانی کون ہیں ؟

میرے ساتھیوں نے میری طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا کہ یہ شیخ حسن علی ہیں انہوں نے کہا کہ شریف کی دعوت قبول کریں اور میں گھوڑے پر سوار ہو گیا اور شریف مکہ کی طرف روانہ ہو گئے جب '' شریف '' مکہ میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ مرحوم شیخ فضل اللہ نوری مرحوم شیخ محمد جواد بیدآبادی بھی وہاں موجو دہیں شریف مکہ کی کوئی حاجت تھی کہ میں نے خدا کی مدد سے اسے حل کر دیا مجھے بعد  میں معلوم ہوا کہ شریف نے پہلے اپنی حاجت مرحوم شیخ فضل اللہ نوری کی خدمت میں عرض کی   لیکن شیخ فضل اللہ نے اس سے فر مایا : تمہاری حاجت کو فلاں شخص انجام دے سکتا ہے تم حکم دو کہ اس شخص کو تلاش کر کے یہاں لاؤ اور یقینا وہ پیدل ہیں ۔ اسی وجہ سے شریف نے حکم دیا کہ ما مورین تمام چھوٹے راستوں پر جائیں اور جہاں بھی وہ ملیں  انہیں میرے پاس لے آؤ ۔

جی ہاں !اولیاء خدا سے کرامات اور غیر معمولی امور کے ظہور پر یقین مثبت اثرات رکھتا ہے ۔

 


[1]۔ بحا رالانوار :ج٦۹ص۱۹۴


 

 

    بازدید : 7375
    بازديد امروز : 0
    بازديد ديروز : 89239
    بازديد کل : 132015338
    بازديد کل : 91512218