حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
دوسرا باب : نماز کی دعائیں ، ائمہ اطہار علیہم السلام کے قنوت

دوسرا باب

نماز کی دعائیں

ائمہ اطہار علیہم السلام کے قنوت 

سید بن طاووس نے  کتاب ’’ مهج الدعوات‘‘ میں فرمایا ہے:...ان دعائے قنوت کی اسناد احمد بن عبد الله بن عیّاشؒ کی کتاب «عمل ماہ رجب و شعبان و ماہ رمضان» میں ہیں ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں :...

جب ہمارے سرور شیخ ابوجعفر محمّد بن عثمان بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے  تو  شیخ ابوالقاسم حسین بن روح بن ابی البحر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اس دن کے بقیہ حصہ میں اس مرحوم کے گھر بیٹھ  گئے ۔ ذکاء خادم نے لپٹا ہوا خط ،ایک عصا اور چمڑے کا چھوٹا سا برتن شیخ کے پاس رکھ دیا کہ جس پر روغن ملا ہوا تھا ۔ انہوں نے عصا کو پکڑ کر اپنے دامن میں ران پر رکھ لیا ،لپٹا ہوا خط اپنے دائیں ہاتھ اور  لکڑی کا وہ  برتن  اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا اور مرحوم کے ورثا سے کہا : اس خط میں ودائع کو ذکر کیا گیا ہے ۔ پس انہوں نے اسے کھولا  اور دیکھا کہ اس میں آل محمد علیہم السلام  ہمارے ائمہ طاہرین علیہم السلام کی دعائیں اور قنوت ہیں ۔ انہوں نے اس سے منہ موڑ کر کہا : پس اس چھوٹے برتن میں یقیناً جواہرات ہیں ۔

شیخ نے ان سے کہا : کیا تم اسے فروخت کرو گے ؟ انہوں نے کہا : اسے کتنی قیمت میں خریدو گے ؟ شیخ نے ابوالحسن یعنی ابن شیث کوثاوی سے کہا :: انہیں دس دینار دے دو ۔ لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے ، وہ اس کی قیمت میں اضافہ کرتے رہے ، یہاں تک کہ انہیں سو دینار کی پیشکش کرتے ہوئے کہا : اگر تم نے یہ (اتنی قیمت میں )فروخت کر دیا تو ٹھیک ہے ، ورنہ تم پچھتاؤ گے ۔ وہ سو دینار کے عوض اسے فروخت کرنے پر راضی ہو گئے۔ شیخ نے ان سے شرط کی کہ عصا اور وہ خط بھی دے دیں ۔

جب خرید و فروخت انجام پا گئی تو شیخ نے کہا : یہ عصا ہمارے آقا و مولا حسن بن علی بن محمد بن علی الرضا علیہم السلام کی ہے  اور  یہ عصا اس دن ان کے ہاتھ میں تھی کہ جب انہوں نے عثمان بن سعید عمری ؒکو اپنا وکیل بنایا تھا ... اور اس چھوٹے سے برتن میں ائمہ علیہم السلام کی انگوٹھیاں ہیں ۔ اور جب اسے کھولا گیا اور جیسا انہوں نے کہا تھا ، اس میں انگوٹھیاں موجود تھیں ، اور اس لپٹے ہوئے خط میں ائمہ طاہرین علیہم السلام کے قنوت تھے  اور اس میں ہمارے آقا و مولا حضرت ابا محمد حسن بن علی امیرالمؤمنین علیہما السلام کا قنوت تھا ۔ انہوں نے املاء کے طور پر وہ دعائے قنوت لکھوائی اور ہم   نے اس خط میں لکھی ہوئی دعا کے عین مطابق وہ دعا لکھی ۔ اور پھر انہوں نے کہا : اس کی اسی  طرح حفاظت کرو کہ جس طرح دین کے اہم امور اور خدائے عزوجل کے واجبات کی حفاظت کرتے ہیں ۔ [1]

 


[1] ۔ مهج الدعوات: 65، بحار الأنوار : 85 ص 211 ح 1

 

    ملاحظہ کریں : 1483
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 100998
    تمام وزٹر کی تعداد : 132038849
    تمام وزٹر کی تعداد : 91523977