حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
قرآن کی نظر میں کفار اور منافقین کی زیارت

قرآن کی نظر میں کفار اور منافقین کی زیارت

زیارت کا مطلب ہے کسی شخص سے ملاقات کرنا یا کسی کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کی قبر پر حاضری دینا ۔ کفار اور منافقین کی قبروں پر حاضری دینا اور ان کی زیارت کرنا جائز نہیں ہے ،جس طرح منافقوں اور کافروں کے جنازے پر نماز پڑھنا حرام ہے۔

خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

«وَلا تُصَلِّ عَلى أَحَدٍ مِنْهُمْ ماتَ أَبَداً وَلا تَقُمْ عَلى قَبْرِهِ ‏إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَماتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ...»[1]

«اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہوئیے گا کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول کا انکار کیا ہے اور فسق کی حالت میں دنیا سے گزر گئے ہیں»۔

اس آیت کے بارے میں يوسف بن ثابت نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

عَنْ أَبِي أُمَيَّهًَْ يُوسُفَ بْنِ ثَابِتِ بْنِ أَبِي سَعِيدَهًَْ عَنْ أَبِي عَبْدِاللَّهِ علیہ السلام... ثُمَّ قَالَ: وَ اللَّهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَامَ النَّهَارَ وَقَامَ‏اللَّيْلَ ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ بِغَيْرِ وَلَايَتِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ لَلَقِيَهُ وَهُوَعَنْهُ غَيْرُ رَاضٍ أَوْ سَاخِطٌ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ‏عَزَّوَجَلَّ «وَلا تُصَلِّ عَلى أَحَدٍمِنْهُمْ ماتَ أَبَداً وَلا تَقُمْ عَلى‏قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَماتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ.وَلاتُعْجِبْكَ أَمْوالُهُمْ وَأَوْلادُهُمْ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِها فِي‏الدُّنْيا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كافِرُونَ». [2]،[3]

أبو اميّه يوسف بن ثابت بن ابى سعيده نے حضرت امام‏صادق علیہ السلام سے روايت کیا ہے کہ :... آپ نے فرمایا : خدا کی قسم! اگر کوئی شخص دن میں روزہ رکھے اور رات بھر خدا کی عبادت کرے اور پھر خدائے عزّوجل سےہماری ولایت کے بغیر ملاقات کرے  تو اس نے خدا سے اس حال میں ملاقات کی کہ وہ اس سے راضی اور خوشنود نہیں ہے ، بلکہ اس سے ناراض ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا :یہ خدائے عزوجل کا ارشاد ہے:«اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہوئیے گا کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول کا انکار کیا ہے اور فسق کی حالت میں دنیا سے گزر گئے ہیں ۔ اور ان کے اموال اور اولاد بھلے آپ کو معلوم نہ ہوں ، خدا ان کے ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کفر کی حالت میں ان کا دم نکل جائے »۔

حنّان بن سدير نے یہ روايت امام باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے :

تَوَفَّي رَجُلٌ مِنَ الْمُنَافِقِينَ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) إِلَى‏ابْنِهِ: إِذَا أَرَدْتُمْ أَنْ تُخْرِجُوا فَأَعْلِمُونِي. فَلَمَّا حَضَرَ أَمْرُهُ‏أَرْسَلُوا إِلَي النَّبِيِّ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فَأَقْبَلَ علیہ السلام نَحْوَهُمْ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِابْنِهِ فِي الْجِنَازَهْ فَمَضَي قَالَ فَتَصَدَّي لَهُ عُمَرُ فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) أَ مَا نَهَاكَ رَبُّكَ عَنْ هَذَا أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى‏أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَداً أَوْ تَقُومَ عَلَى قَبْرِهِ؟ فَلَمْ يُجِبْهُ‏النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) . قَالَ: فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ أَنْ يَنْتَهُوا بِهِ إِلَي قَبْرِهِ قَالَ‏عُمَرُ أَيْضاً لِرَسُولِ اللَّهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): أَمَا نَهَاكَ اللَّهُ عَنْ أَنْ تُصَلِّيَ‏عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَداً أَوْ تَقُومَ عَلَى قَبْرِهِ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ‏كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ. وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ؟ فَقَالَ‏النَّبِيُّ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)لِعُمَرَ عِنْدَ ذَلِكَ: مَا رَأَيْتَنَا صَلَّيْنَا لَهُ عَلَي‏جَنَازَتِهِ وَ لَا قُمْنَا لَهُ عَلَي قَبْرِهِ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ ابْنَهُ رَجُلٌ مِنَ‏الْمُؤْمِنِينَ وَ كَانَ يَحِقُّ عَلَيْنَا أَدَاءَ حَقِّهِ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَعُوذُبِاللَّهِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ وَ سَخَطِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ.[4]

حنان بن سدير نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ منافقین میں سے ایک شخص وفات پا گیا۔ رسول‏خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی کو اس کے بیٹے کے پاس بھیجا اور فرمایا : جب بھی اس کے جنازے کے لئے باہر آنا چاہو تو مجھے اس کی اطلاع دو ۔ جب تشییع جنازہ کا وقت ہوا تو اس نے کسی کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا ۔ آپ ان کے پاس آئے اور تشییع جنازہ میں اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر  چلنے لگے ۔ عمر نے آپ کا راستہ روکا اور کہا : یا رسول اللہ  ! کیا آپ کے پروردگار نے آپ کو  ان میں سے کسی کے جنازے پر نماز پڑھنے اور ان کی قبر پر آنے سے منع نہیں کیا ؟! پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ قبر تک پہنچنے سے پہلے عمر نے ایک مرتبہ  پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا : کیا آپ کے خدا نے آپ کو  ان  کے مُردوں پر نماز پڑھنے اور ان کی قبر پر آنے سے منع نہیں کیا ؟!انہوں نے خدا اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے  اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ کافر ہیں ؟  پس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمر سے کہا: تم نے ہمیں اس کے جنازے پر نماز پڑھتے ہوئے اور اس کی قبر پر نہیں دیکھا ۔ پھر آپ نے فرمایا : اس کا بیٹا مؤمنین میں سے ہے اور ہم پر اس کا حق ہے جسے ادا کرنا چاہئے ۔ عمر نے کہا : یا رسول اللہ ! میں خدا کے غضب اور آپ کی ناراضگی سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔

عمر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اعتراض کیا اور آپ پر تنقید کی ، لیکن چونکہ اس  کا اعتراض صحیح نہیں تھا، اس لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اور اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن جب اس نے دوبارہ اعتراض کیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: تم نے ہمیں اس کے جنازے پر نماز پڑھتے ہوئے اور اس کی قبر پر نہیں دیکھا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میت کے بیٹے کے پاس کھڑے تھے جو مؤمنوں میں سے تھا، نہ کہ اس میت کی قبر کے پاس کہ جو کافر تھا۔ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے اس عمل سے اس مؤمن کا حق ادا کرنا چاہتے تھے اور اس کی تکریم  کرنا چاہتے تھے ، نہ کہ اس کے   کافر باپ کے جنازے میں آئے تھے ۔

 


[1] ۔ سورۂ توبہ ، آیت ۸۴.

[2] ۔ سورۂ توبہ ، آیت ۸۴ اور ۸۵.

[3]۔تفسير اهل بيت:: ج ۶ ، ص ۲۷۶ ، الكافى: ج ۸ ، ص ۱۰۷.

[4] ۔ تفسير اهل بيت:ج ۶ ، ص۲۷۸

    ملاحظہ کریں : 190
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 86049
    تمام وزٹر کی تعداد : 132808253
    تمام وزٹر کی تعداد : 92012164