حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عزائے امام حسین علیہ السلام کی قدیم تاریخ

عزائے امام حسین علیہ السلام کی قدیم تاریخ

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی تاریخ بہت طویل ہے اور یہ ان کی شہادت کے بعد سے مخصوص نہیں ہے۔

حضرت جبرائیل نے حضرت آدم علیہ السلام کے لئے عاشورا  کے مصائب بیان کئے  تو  آپ امام حسین علیہ السلام پر گریہ و عزاداری کرتے رہے۔ کربلا کی سرزمین سے گزرنے والے عظیم ترین انبیاءعلیہم السلام بھی امام حسین علیہ السلام کے مصائب سے آگاہ ہوئے اور انہوں نے بھی  آپ پر گریہ و عزاداری کی ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے بارہا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب و انصار کی شہادت کو بیان کیا ہے اور آپ  پر آنے والے مصائب  پر آنسو بہائے ہیں۔

امير المؤمنين حضرت امام علی ‏عليه السلام کا جنگ صفین کے لئے جاتے وقت  جب کربلا سے گزر ہوا تو آپ نے سيّدالشهداء حضرت امام حسین عليه السلام پر گریہ کیا ۔

شیعہ اور اہل سنت کے بزرگ علماء نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امير المؤمنين حضرت امام علی ‏عليه السلام سے امام حسین علیہ السلام  کی شہادت کے بارے میں پیشنگوئیاں بیان کی ہیں ۔

انہوں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے کہ سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ و عزاداری کی اہمیت میں  کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ اگرچہ وہابیوں کے کچھ ملازمین نے گریہ اور عزاداری کی بنیاد پر شک  اور اعتراض کیا ہے اور اسے ردّ کرتے ہوئے اس کا انکار کیا ہے ، لیکن اسلام کے احکام و دستورات سے باخبر افراد بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے اس انکار کے پس پردہ سیاسی عوامل کارفرما ہیں اور وہ   اسے شیعت کے فروغ کو روکنے کے لئے  عزاداری کے  سدباب  کو ہی اپنا  سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے ہیں ۔

عزاداری کے جواز کی سب سے بہترین دلیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سید الشہداء حضرت حمزہ علیہ السلام کے لئے سوگواری ہے اور اسی طرح آنحضرت کا امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمۂ زہرا علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرنا بھی عزاداری کے جواز کی دلیل ہے ۔

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزاداری کو نہ صرف شیعہ علماء بلکہ اہل سنت علماء نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ، حتی انہوں نے اپنی کتابوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں منعقد ہونے والی عزاداری کو بھی بیان کیا ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارہا گریہ و عزاداری کی تائید فرمائی ہے اور یہ روایات شیعوں اور اہل سنت کی اہم ترین کتابوں میں موجود ہیں ۔

اہل سنت کے چار اہم فرقوں میں سے ایک کے سربراہ احمد بن حنبل اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں :

ایک دن میں عبدالله بن عمر  کے ساتھ بازار میں بیٹھا ہوا ہے  کہ اچانک وہاں سے ایک جنازہ لے جایا گیا ، جس پر اس کے پسماندگان رو رہے تھے ۔ عبد اللہ بن عمر  نے ان کے رونے کی وجہ سے ان کی مذمت  کی ۔

 سلمه نے عبدالله  سے کہا : ایسی بات مت کہو ، کیونکہ میں نے ابو هريره سے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے ایک جنازہ لے جایا گیا ، جب کہ میں اور عمر بھی آنحضرت  کے ساتھ تھے ، بہت سی خواتین اس جنازے پر رو رہی تھیں ، عمر نے ان پر حملہ کیا اور انہیں رونے سے منع کیا  ۔

 رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : انہیں چھوڑ دو !کیونکہ  آنکھیں رو رہی ہیں ، جب کہ غم اور مصیبت ابھی تازہ ہے ۔ 

عبد اللہ بن عمر نے پوچھا : کیا تم نے خود ابو ہریرہ سے یہ حدیث سنی ہے ؟

 میں نے کہا : جی ہاں ! میں نے خود یہ حدیث  سنی ہے ۔

 اس دوران عبدالله بن عمر  نے کہا : خدا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بہتر جانتے ہیں ۔[1]

اس روايت کی بنا پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے «عزادارى» کی تائید فرمائی ہے ، لہذا آنحضرت کی مخالفت کرنے والوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ [2]

* * *

پیغمبر اکرم ‏ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حضرت‏ زهرا عليها السلام ، اميرالمؤمنين حضرت امام علی‏ عليه السلام  اور اسی طرح حضرت  امام حسن اور  امام حسين‏ عليهما السلام  کے مصائب پر گریہ اور عزاداری کرنے  کے بارے میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں ۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کے خاندان پر آنے والے مصائب پر نقل ہونے والی عزاداری اور سوگواری  کا کسی طرح سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ شیعوں اور اہل سنت کی تاریخی و روائی کتب میں اس حد تک ذکر ہوا ہے  کہ اس کتاب میں ان کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

اس بنا پر  اگر وہابی نامی گروہ صدیوں بعد اس کا انکار کر ے تو اس کی صرف سیاسی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس کتاب میں ایسے ہی مطالب بیان ہوئے ہیں جو آپ کے لئے یہ حقیقت ثابت کر دیں گے ۔

اب ہم  معصومين‏ عليهم السلام کی عزاداری کے کچھ نمونے ذکر کرتے ہیں :

 


[1] ۔ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءِ بْنِ عَلْقَمَةَ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِالسُّوقِ وَمَعَهُ سَلَمَةُ بْنُ الْأَزْرَقِ ‏إِلَى جَنْبِهِ، فَمُرَّ بِجِنَازَةٍ يَتْبَعُهَا بُكَاءٌ فَقَالَ: عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ تَرَكَ أَهْلُ هَذَا الْمَيِّتِ الْبُكَاءَلَكَانَ خَيْرًا لَمَيِّتِهِمْ، فَقَالَ سَلَمَةُ بْنُ الْأَزْرَقِ: تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: نَعَمْ ‏أَقُولُهُ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَمَاتَ مَيِّتٌ مِنْ أَهْلِ مَرْوَانَ، فَاجْتَمَعَ النِّسَاءُ يَبْكِينَ‏ عَلَيْهِ، فَقَالَ مَرْوَانُ: قُمْ يَا عَبْدَ الْمَلِكِ فَانْهَهُنَّ أَنْ يَبْكِينَ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: دَعْهُنَّ فَإِنَّهُ مَاتَ ‏مَيِّتٌ مِنْ آلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاجْتَمَعَ النِّسَاءُ يَبْكِينَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ‏ الْخَطَّابِ يَنْهَاهُنَّ وَيَطْرُدُهُنَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهُنَّ يَا ابْنَ ‏الْخَطَّابِ فَإِنَّ الْعَيْنَ دَامِعَةٌ، وَالْفُؤَادَ مُصَابٌ، وَإِنَّ الْعَهْدَ حَدِيثٌ»، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَنْتَ ‏سَمِعْتَ هَذَا مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَأْثُرُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:نَعَمْ قَالَ: فَاللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. (مسند احمد حنبل: 10 / 130).

[2] ۔ پس عزاداری کی مخالفت درحقیقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی حدیث کی کھلی مخالفت ہے  ۔ (مترجم)

    ملاحظہ کریں : 166
    آج کے وزٹر : 48921
    کل کے وزٹر : 92670
    تمام وزٹر کی تعداد : 132734045
    تمام وزٹر کی تعداد : 91975035