حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
دو نکات پر غور

دو نکات پر غور

ان دو نکات پر غور کرنے سے امام حسین علیہ السلام کے اس فرمان کی عظمت آشکار ہو جاتی ہے :

۱  ۔ان حالات اور شرائط  پر توجہ کرنا ، جن میں امام حسین علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا ۔ اگر ہم ان شرائط ، حالات اور اس وقت پر غور کریں کہ جب  امام حسین علیہ السلام نے یہ سخن بیان فرمائے تو ہم  کسی حد تک متوجہ ہوں گے کہ آپ نے کن حالات اور کن احساسات میں شیعوں تک اپنا سلام اور پیغام پہنچایا ہے ۔

سرور شہیداں حضرت امام حسین علیہ السلام نے جن حالات اور شرائط میں اپنے شیعوں تک یہ پیغام اور سلام پہنچایا ہے ؛ ان سے کسی حد تک آگاہ ہونے کے لئے اس نکتہ پر توجہ فرمائیں :

امام حسین علیہ السلام کی اپنے شیعوں سے الفت و محبت اس قدر زیادہ ہے کہ  جب آپ کو قيس بن مسهر صيداوى کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے گریہ کرتے ہوئے اہل بیت علیہم السلام اور شیعوں کے لئے یوں دعا کی :

«اللّهمّ اجعل لنا و لشيعتنا عندک منزلاً كريماً واجمع بيننا و بينهم في مستقرّ من رحمتک إنّک على كلّ شيءٍ قدير».[1]

 خدایا ! ہمارے اور ہمارے شیعوں کے لئے اپنے نزدیک باکرامت منزل قرار دے ، ہمارے اور ان کے درمیان اس جگہ  جمع کرنا کہ جہاں تیری رحمت ہے ، بیشک تو ہر شیء پر قادر ہے ۔

امام حسین علیہ السلام کی  عاشورا کے دن اپنے شیعوں سے الفت و محبت اور کرم کی شدت اپنے اہل بیت علیہم السلام سے رخصت ہونے کے بعد آشکار ہوئی ۔

امام حسین علیہ السلام کے امام سجاد علیہ السلام اور اہل حرم سے وداع کرنے کے بعد شیعوں کے لئے سلام و پیغام کہا ہے  اور امام حسین علیہ السلام نے حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام ، حضرت علی اکبر علیہ السلام ، تمام بنی ہاشم اور اصحاب و انصار کی شہادت کے بعد  امام سجاد علیہ السلام اور اہل حرم سے وداع کہا تھا ۔ یعنی آپ ان بزرگ ہستیوں کی شہادت کے شاہد تھے ، اپنے نے جوانان بنی ہاشم اور اصحاب و انصار کے خون میں غرق لاشوں کو دیکھا تھا  اور ان تمام مصائب کے بعد جب کوئی بھی یاور نہ رہ گیا تو شکستہ کمر اور جگر سوز حالت میں اہل حرم سے رخصت ہونے کے لئے خیموں میں آئے ، جب کہ پیاس کی شدت کی وجہ سے آپ کو ہر چیز تاریک نظر آ رہی تھی ، آپ نے ان حالات میں امام سجاد علیہ السلام اور اہل حرم سے وداع کیا ، یعنی جب آپ  سخت  ترین حالات اور شرائط میں امام زین العابدین علیہ السلام اور اہل حرم سے وداع کرنے کے لئے آئے تو امام حسین علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو سلام پہنچایا اور امام سجاد علیہ السلام سے فرمایا :

بلّغ شيعتي عنّي السّلام،فقل لهم:انّ أبي مات غريباً فاندبوه ومضى شهيداً فابكوه.

میرے شیعوں تک میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ  میرے بابا اس دنیا سے غریب گئے ، ان پر ندبہ کرو ، وہ شہید ہوئے ، ان پر گریہ کرو ۔

سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے ایسے سخت ترین حالات میں یہ سخن بیان فرمائے ہیں کہ کائنات میں آپ کے علاوہ کسی کو ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے ، اب اس پر بہت توجہ کریں کہ  انسان اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے عزیز و اقارب سے اہم ترین مطالب بیان کرتا ہے ۔

۲ ۔ اب اس بات پر غور فرمائیں کہ امام حسین علیہ السلام نے کائنات میں سب سے سخت مصائب اور دشوار حالات کے باوجود اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کیوں شیعوں کو سلام کہا ہے اور انہیں کیوں حکم دیا ہے کہ وہ حضرت پر نوحہ سرائی اور گریہ کریں ؟!

ہم نے امام حسین علیہ السلام کے اس سلام اور پیغام کےجواب میں  کیا کیا ؟ ہم نے اسے کتنی اہمیت دی ؟

دشمن شیعوں سے دنیا کے گوشہ گوشہ  میں ہونے والی عزاداری کو کیوں سلب کرنا چاہتا ہے؟ہم اس کتاب کے آخری حصے میں اس نکتہ پر روشنی ڈالیں گے۔

 


[1] ۔ بحارالانوار:۴۴ /۳۸۲  .

    ملاحظہ کریں : 133
    آج کے وزٹر : 14123
    کل کے وزٹر : 103882
    تمام وزٹر کی تعداد : 132872028
    تمام وزٹر کی تعداد : 92044121