حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
آل بویہ کے بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

آل بویہ کے بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

مرحوم حاج شيخ عبّاس قمى نے کتاب  «سفينۃ البحار»[1] میں دیلمیوں کی حکومت کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے:

يخرج من ديلمان بنوالصياد ثمّ يستقوى أمرهم حتّى يملک الزوراء ويخلع الخلفاء فقال له قائل : فكم مدّتهم يا أميرالمؤمنين فقال : مائة أو تزيد قليلاً...؛

دیلمان سے بنو صياد قيام کریں گے ، اور پھر ان کی حکومت اس طرح طاقتور ہو جائے گی  كه وہ  زوراء کو بھی حاصل کر لیں گے ۔ اس دوران کسی شخص نے حضرت امیر  المؤمنین علیہ السلام سے پوچھا : یا امیر المؤمنین! وہ کتنے سال حکومت کریں گے ؟  فرمایا : سو سال ، یا اس سے کچھ زیادہ...

معز الدوله احمد نے سنہ ۳۳۴ ہجری میں بغداد میں عباسیوں کی حکومت کا مركز حاصل کر لیا  اور تین سو سال پہلے اس واقعہ کے بارے میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بیان کئے گئے  فرمان کو حقیقت میں بدل دیا ۔معز الدوله شیعہ ہونے کی وجہ سے عباسی خلیفہ کے احترام کا قائل نہیں تھا ۔ لہذا فتح بغداد کے ڈیڑھ ماہ بعد ایک دن دیلمیوں کے دو سربراہوں نے عباسی خلیفہ مستکفی  کی گردن میں عمامہ باندھا اور اسے گھسیٹ کر معز الدوله کے تخت کے سامنے لا کر پھینک دیا ۔ معز الدوله نے  مستكفى کو اندھا کر کے زندان میں پھینک دیا اوراس کے  ’’ المطيع لله ‘‘ نامی جانشین کو خلیفہ بنا دیا ، لیکن اس نئے خلیفہ کے پاس بھی کوئی اختیارات نہیں تھے ۔

معز الدوله سنہ ۳۳۴ ہجری سے سنہ ۳۵۶ ہجری تک پوری طاقت کے ساتھ بغداد اور عراق پر حکومت کرتے رہے اور پھر سنہ ۳۵۶ ہجری میں وفات پا گئے  ۔  انہوں نے ان بائیس سالوں میں مختلف علاقوں پر لشكركشى کی ، جیسے آذربايجان، شمالِ عراق اور خليج فارس کے ساحل ،اور  انہیں ان تمام معرکوں میں فتح نصیب ہوئی ۔

معزالدوله کی فتوحات  ’’عمان کی فتح‘‘ سب سے اہم فتح  تھی ، جو انہیں اپنے بھتیجے ’’عضد الدوله‘‘ کے  ذریعے حاصل ہوئی  اور جس سے دیالمی حکومت کو مزید وسعت ملی ۔

معزالدوله کی بائیس سالہ حکومت کے دوران عراق میں مکمل طور پر شیعہ  مذہب رائج ہو چکا تھا  اور شیعوں کو سابقہ بدحالی اور بیچارگی سے نجات ملی تھی ۔

معزالدوله نے بغداد میں سيد الشهداءحضرت اباعبدالله الحسين علیہ السلام کی پہلی عزاداری کا انعقاد کیا ۔ اس سے پہلے بغداد میں محرم الحرام کے آغاز میں سال نو کا جشن منایا جاتا تھا اور چراغاں کیا جاتا تھا  لیکن معز الدوله نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے یکم محرم الحرام سے بغداد کو سیاہ پوش کرنے کا حکم دیا ، نیز انہوں نے پہلی مرتبہ غدیر کے موقع پر عام جشن کا اعلان کیا اور حکم دیا کہ  مساجد کے بالائی حصوں پر معاویہ اور حق ولایت کے دوسرے غاصبوں پر لعنت پر مبنی جملے  لکھے جائیں ۔[2]

كتاب تاريخ تشيّع مىں لکھتے ہیں : ایران اور عراق پر اس خاندان کی حکومت کے دوران ان کے اقدامات ان علاقوں میں شیعت کے فروغ کے علاوہ خود ان کے شیعہ ہونے کی بھی حکایت کرتے ہیں ۔

ان کے اقدامات میں سے ایک شیعہ مذہبی شعائر کا احیاء تھا ، جسے اس وقت تک شیعہ یا تو انجام ہی نہیں دے سکتے تھے یا پھر مخفیانہ طور پر بہت ہی چھوٹے پیمانے پر انجام دیتے تھے لیکن اس کے باوجود اسے سے انہیں جنگ اور قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔

سب سے اہم شیعہ مذہبی شعائر عاشورا کے دن سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری تھی ، عباسی خلفاء اور بالخصوص متوکل عباسی اس کا شدید مخالفت تھا اور وہ اس کے خلاف مبارزہ آرائی میں مصروف رہتا تھا ،[3] لیکن معزّ الدوله کے حکم  پر عباسیوں کی حکومت کے مرکز یعنی بغداد میں سنہ ۳۵۲ ہجری [4]سے آل بویہ کی حکومت کے خاتمہ تک (سنہ ۴۴۸  ہجری ) عاشور کے دن رسمی طور پر عزاداری کا انعقاد کیا جاتا تھا ، اس دن بازار بند ہوتے تھے اور شیعہ اجتماعی طور پر عزاداری  کرتے تھے ۔ [5]

شیعہ ان مراسم اور مجالس میں اس طرح سے شریک ہوتے تھے کہ ابن اثير اور ابن كثير کے مطابق شیعوں کی کثرت اور سلطان (یعنی معزّ الدوله) کی حمایت کی وجہ سے بغداد کے اهل سنّت اسے کسی صورت میں بھی روک نہیں سکتے تھے ۔ [6]

اس کے باوجود بغداد میں متعصب سنّیوں  کی موجودگی کی وجہ سے یہ مراسم کبھی بھی پرامن کی فضا میں منعقد نہیں ہوتی تھیں اور کبھی محلّه باب البصره اور محلّه نهر قلابتى میں رہنے والے حنبلی مذہب سےتعلق رکھنے والے متعصب سنّی ، شیعوں پر حملہ کیا کرتے  تھے ۔ [7]

اسی مذہبی تصادم کے نتیجہ میں سنہ ۴۱۶ ہجری میں محلّہ کُرخ میں سید مرتضیٰ اور سنہ ۴۴۸ ہجری میں شیخ طوسی کے گھر کو نذر آتش کر دیا گیا ، جس سے ان کی تمام کتابیں جل کر راکھ ہو گئیں اور شیخ طوسی مجبوراً نجف کی طرف ہجرت کر گئے ۔  [8]

جو محفل شدیدنزاع و اختلاف  کا باعث بنی ، وہ معزّ الدولہ کے حکم پر  ۱۸ ذی الحجہ سنہ ۳۵۲ ہجری کو عید سعید غدیر کا جشن تھا ۔[9]

ان دو باتوں کی وجہ سے بغداد میں اہلسنت شیعوں کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے  ، لہذا انہوں نے بھی روز عاشورا اور عید غدیر کی طرز پر مجالس و محافل منعقد کرنا چاہئیں ۔ انہوں نے عاشورا  کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھارہ محرم کو مَسْكِن میں معصب بن زبير کے قتل کی مناسبت سے اس کے مزار پر مجلس کا انعقاد کیا  اور عید غدیر کا مقابلہ کرنے کے لئے ۲۶ ذی الحجہ کو  «روز غار» کی  مناسبت سے جشن کا اہتمام کیا ۔[10]

معزّ الدولہ کے سنہ ۳۵۱ ہجری میں اقدامات سے ان کے شیعہ ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔نیز انہی کے حکم پر بغداد کی مساجد کے دروازوں پر کچھ شیعہ شعائر لکھے گئے ، ان شعائر میں سے ایک یہ تھا :

لعن الله ، ولعن من غصب فاطمه (عليها السلام) فدكاً، ومن منع أن يدفن الحسن(عليه السلام) عند قبر جدّه، ومن نفى أباذر الغفارى ومن أخرج العبّاس من الشورى. [11]

 یہ واضح سی بات ہے کہ عباسی خلیفہ کی رضائیت کے لئے لکھے گئے   آخری جملہ کے علاوہ  باقی تمام جملوں سے اہل سنت کی مخالفت میں اضافہ ہوتا ، اور اسی وجہ سے جلد ہی یہ  نعرے مٹا دیئے گئے  اور جب  معزّ الدوله نے ان نعروں کو دوبارہ لکھنے کا حکم دیا تو ان کے وزیر مهلبى نے انہیں یہ کام کرنے سے منع کیا ۔ لہذا  انہوں نے یہ جملہ  «لعن الله الظالمين لآل رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) من الأوّلين والآخرين» لکھنے پر ہی اكتفا کیا اور صرف معاویہ پر واضح طور پر لعنت کی گئی ۔ [12]

اس کی یہ وجہ تھی کہ معاویہ پر صرف شیعہ ہی لعنت نہیں کرتے تھے ، بلکہ  اس تاریخ سے پہلے بھی اس  پر منبروں سے معاویہ پر لعنت کی جاتی  تھی۔ مأمون، معتز اور معتضد ان  لوگوں میں سے تھے ،جو معاویہ پر منبروں سے لعنت کیا کرتے تھے ۔ [13]

اسی طرح  سنہ ۳۲۱ ہجری میں خلیفہ  کے دربار میں ترک امراء میں سے على بن تلبق اور اس کے کاتب حسن بن هارون نے بھی یہ کام انجام دیا تھا ۔ [14]

یہ دو جملے «أشهد أنّ عليّاً ولىّ الله» اور «حيَّ على خير العمل» شیعوں کے سب سے واضح شعار ہیں ، جنہیں  آل بویہ نے اپنی حکومت کے اختتام تک اذان میں احیا کیا ۔ [15]

جب سنہ ۴۴۸ ہجری  میں طغرل بيك سلجوقى بغداد میں داخل ہوا اور اس نے آل بویہ کی حکومت کا  خاتمہ کر دیا تو سنہ ۵۲۸ ہجری تک اسلامی ممالک میں یہ اذکار اذان سے نکال دیئے گئے  اور پھر شاہ اسماعیل صفوی کے زمانے میں ان کے حکم پر ایران میں دوبارہ سے اذان میں یہ دونوں جملے کہے جانے لگے ۔ [16]،[17]

امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام نے تین سو سال پہلے آل بويہ کی حكومت کے بارے میں پيشنگوئی كی تھی ۔ آل بویہ نے بھی اپنے دور حکومت میں شیعت کے لئے بہت بڑی خدمات انجام دیں :

۱ ۔ انہوں نے  «أشهد أنّ عليّاً ولىّ الله» اور «حيَّ على خير العمل»کو دوبارہ  زندہ کیا ۔ اس بنا پر لوگوں کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ صفویہ نےسب سے پہلے اذان میں شہادت ثالثہ کو رائج کیا تھا اور نہ ہی ان کا  تشیع کو دین صفیہ کہنا درست ہے ؛ کیونکہ صفویہ سے پہلے آل بویہ نے بھی سو سال سے زیادہ مدت تک اذان میں شہادت ثالثہ کو زندہ رکھا ۔

۲ ۔  اميرالمؤمنين حضرت امام علی علیہ السلام کے حرم کی تعمیر نو ۔

۳ ۔ حضرت امام حسين علیہ السلام کے حرم کی تعمیر نو ۔

۴ ۔  معز الدولہ کے حکم پر سنہ ۳۵۲ ہجری میں عید غدیر کے جشن کا انعقاد ۔

۵ ۔ سنہ ۳۵۲ ہجری سے آل بویہ کی حکومت کے خاتمہ تک عاشورا کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی مجالس اور مراسم کا انعقاد ۔ اس دن بغداد میں بازار بند ہوتے تھے اور شیعہ اجتماعی صورت میں عزاداری کیا کرتے تھے ۔

تشیع کے لئے آل بویہ کی دوسری بھی کئی خدمات بھی ہیں ، جو تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں ۔[18]

 


[1] ۔ سفينة البحار، مرحوم محدّث قمّى:۲ /۳۳۴ .

[2] ۔ پيشگويى ‏هاى اميرالمؤمنين علیه السلام از فتنه ‏ها و حوادث آينده:۴۱۱.

[3] ۔  المنتظم:۱۱ /۲۳۷۔

[4] ۔ ذهبى کہتے ہیں:«وهذا أوّل يوم نيح عليه بغداد»؛ تاريخ اسلام و وفيات المشاهير والأعلام: ۱۱ حوادث سال ‏هاى۳۸۰ -۳۵۱  .

[5] ۔  المنتظم: ۱۴ /۱۵۰  .

[6] ۔  الكامل في التاريخ:۷ /۲۷۹ ، البداية والنهاية:۱۱ /۲۵۹.

[7] ۔  المنتظم:۱۴ /۷۵  ،۸۴  اور۱۰۹.

[8] ۔  المنتظم:۱۵ /۱۷۱  اور۱۶ / ۵۸ ، البداية والنهاية:۱۲ /۷۳. سلجوق ترکوں کے برسراقتدار آنے  اور طغرل بيك  کے وزیر عميد الملك ‏كُنْدُرى کے انتہائی تعصب کی وجہ سے یہ مذہبی تنازعات شدت اختیار کر گئے۔

[9] ۔   المنتظم:۱۴ /۱۵۱.

[10] ۔  المنتظم:۱۵ /۱۷۱  اور۱۶ /۵۸ ، البداية والنهاية:۱۲ /۷۳. سلجوق ترکوں کے برسراقتدار آنے  اور طغرل بيك  کے وزیر عميد الملك ‏كُنْدُرى کے انتہائی تعصب کی وجہ سے یہ مذہبی تنازعات شدت اختیار کر گئے۔

المنتظم:۱۵ /۱۴. ’’روز غار ‘‘ :یہ  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کے موقع پر ابوبکر کے ساتھ  غار ثور  میں جانے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ واقعہ ربیع الاوّل میں پیش آیا اور اس کا ۲۶ ذی الحجہ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن عقل  کے اندھوں نے تواتر کے برخلاف مذہبی تعصبات  کی بنا پر ۱۸ ذی الحجہ کے دن عید غدیر کے مقابلہ میں  جشن کے لئے اس دن کا انتخاب کیا ۔ (یہاں یہ نکتہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ غار ثور کے اس واقعہ میں آپ کے ساتھ ابوبکر کے جانے میں بھی اختلاف ہے ) .

[11] ۔  المختصر في أخبار البشر:۲ /۱۰۴ ، الكامل في التاريخ:۷ /۲۵۷.

[12] ۔  المنتظم:۱۴ /۱۴۰.

[13] ۔   تاريخ الاُمم والملوك:۸ /۱۸۲ اور ۱۸۳.

[14] ۔    تجارب الاُمم:۵ /۲۶۰.

[15] ۔    نشوار المحاضرة وأخبار المذاكرة:۲ /۳۳ ، البداية والنهاية:۱۱ /۲۸۷ ، اور۱۲ /۳،السيرة  الحلبية ... :۱ / ۳۰۵،مزید تفصیلات کے لئے ر.ك: الصحيح من سيرة النبى ‏الأعظم صلّی الله علیه وآله و سلم :۴ /۲۷۷  کے مابعد.

[16] ۔    احسن التواريخ:۲ /۶۱. اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ شاه اسماعيل کی سلطنت کا آغاز سنہ ۹۰۷ ہجری میں ہوا، اس بنا پر  طغرل سے شاه اسماعيل تک ۴۵۹ سال کا فاصلہ ہے.

[17] ۔    تاريخ تشيّع: ۲ /۵۷.

[18] ۔ ر ك : ۱- آل بويه و اوضاع زمان ايشان، ۲- تاريخ آل بويه.

    ملاحظہ کریں : 162
    آج کے وزٹر : 1552
    کل کے وزٹر : 103882
    تمام وزٹر کی تعداد : 132846932
    تمام وزٹر کی تعداد : 92031548