حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حیوانات کا رام ہونا

حیوانات کا رام ہونا

اب ہم اس بارے میں وارد ہونے والی بعض روایات پر توجہ کریں ۔

 رسول  اکرمۖنے امام عصرعلیہ السلام کی بشارت دی ہے اور عصر ظہوراور ان کی حکومت کی خصوصیات کو متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا ہے اور اس وقت دنیا اور اہل دنیا حتی کہ حیوانات میں ہونے والے مہم تحوّلات و تغیّرات کی خبر دی ہے۔رسول اکرم  ۖ اپنے ایک خطبے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:

 ''و تنزع حُمة کلّ دابّة حتی یدخل الولید یدہ  ف فم الحنش فلایضرہ،وتلقی الولیدة الاسد فلا یضرھا،و یکون ف الابل کأنّہ کلبھا و یکون الذئب ف الغنم کانّہ کلبھا وتملأ الارض من الاسلام و یسلب الکفّار ملکھم ولا یکون الملک الاّ للّہ و للاسلام وتکون الارض کفاثورالفضة تنبت نباتھا کما کانت علی عھد آدم؛یجتمع النفر علی القثاء فتشبعھم و یجتمع النفر علی الرّمّانة فتشبعھم ویکون الفرس بدُرَیھمات '' ([1])

 ہر حیوان سے گزند و ضرر سلب کر لیا جائے گا ۔حتی کہ چھوٹا بچہ زہریلے سانپ کے منہ میں اپنا ہاتھ ڈال دے تو وہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔اگر بچہ شیر کے آمنے سامنے ہو تو شیر اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ اونٹوں کے درمیان شیر ایسے ہوگا جیسے ان کا کتا ہو۔بھیڑوں کے درمیان بھیڑیابھی ان کے کتے کی طرح ہوگا۔پوری روئے زمین پر اسلام کا چرچا ہوگا۔کفّار سے ان کی  ثروت و جائیداد  سلب ہو جائے گی۔کوئی حکومت نہیں ہوگی مگر خدا اور اسلام کی حکومت۔  زمین چاندی کے دسترخوان کی طرح ہے ،جو اپنے نباتات اسی طرح اگائے گی جس طرح وہ آدم   کے زمانے میں اگاتی تھی۔

 کچھ لوگ مل کر ایک خیار( کھیرا) کھائیں تو وہ سب سیر ہوجائیں گے۔ اگر کچھ مل کر ایک انار کھائیں تو وہ ان سب کو سیر کردے گا۔ایک گھوڑے کی قیمت چند درہم ہوگی۔

اس روایت میں ظہور کے منوّر و درخشاں زمانے میں دنیا میں ہونے والی اہم تبدیلیوں پر توجہ کریں:

١۔درندہ حیوانات سے ان کی درندگی لے لی جائے گی۔

 ۲۔شیر اور بھیڑیئے  جیسے وحشی اور درندہ حیوانات پالتو جانوروں کی طرح ہوجائیں گے اور وہ اونٹ اور بھیڑوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔

 ٣۔جو کفار اپنے کفر پر باقی رہیں گے ان سے ان کاتمام مال و دولت لے لیا جائے گا ۔

 ٤۔اس زمانے میں دنیا پر فقط اسلام کی حکمرانی ہوگی ۔خدا اور رسولۖ کی حکومت ہوگی اور اس کے علاوہ کسی حکومت کا وجود نہیں ہوگا۔

 ٥۔اس زمانے میں خیر و برکت اس قدر زیادہ ہوجائے گی کہ آج کی بہ نسبت پھلوں کی مقدار بہت زیادہ ہوجائے گی کہ کھیرا اور انار جیسا ایک پھل چند لوگوں کو سیر کرے گا۔

 ٦۔اشیاء بہت سستی وکم قیمت ہوجائیں گی کہ ایک گھوڑا چند درہم میں خریدا اور فروخت کیا جا ئے گا۔

 اس بناء پر اسلام عالمی حکومت،آسمانی برکات ،اقتصادی ترقی،زراعت میں اضافہ اوردرندوں سے وحشت و درندگی کا خاتمہ  اس زمانے کی اہم تبدیلیوں میں سے چند ہیں

 یہ تمام عصرِ ظہور کی خصوصیات میں سے ہیں کہ روایت میں پیغمبر اکرم  ۖ نے اہل زمین کو اس کی نوید سنائی ہے۔

 وحشی حیوانات کا تابعہوجانا اور درندوں سے امان اس زمانے کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ حیوانات میں تحوّل و تبدّل اور بدلاؤ ،حضرت بقیة اللہ الاعظم  (عج) کی قدرتِ ولایت اور اس زمانے کی موجودات پر ان کے  اختیار کی دلیلہے۔

 اس زمانے میں نہ صرف درندے حیوانات سے درندگی ختم ہوجائے گی ،بلکہ اس زمانے میں لوگوںپر زمینی و آسمانی برکات نازل ہوں گی۔اسی طرح مختلف اشیاء میں ہر قسم کا تکامل،تحوّل،تبدّل اور ترقی بھی امامِ عصرکے ظہور اور ان کی قدرت ِ ولایت کی وجہ سے ہوگا۔

 کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں  کہ مسئلہ ظہور فقط حضرت حجة بن الحسن العسکری (عج)کامادی و جسمانی ظہور نہیں ہے،بلکہ آنحضرت کے ظہور کا مقصد دنیا میں قدرت ِ ولایت و تصرّف سے استفادہ کرنا ہے اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج) کے ظہور سے عالمِ تکوین میں آنحضرت کے تصرفات ظاہر ہوں گے اور سب لوگ پوری دنیا میں ان عجیب  تبدیلیوں کے گواہ ہوں گے۔

 حضرت امام جعفر صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:

 '' ینتج اللّہ تعالی فی ھذہ الامة رجلا منی و انا منہ یسوق اللّہ تعالٰی بہ برکات  السمٰوات و الارض، فینزل السماء قطرھا و یخرج الارض بذرھا و تأمن وحوشھا و سبأھا و یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا،و یقتل حتی یقول الجاھل لو کان ھذا من ذریة محمدۖلرحم '' ([2])

 خدا وند متعال اس امت میں سے ایک مرد کو بھیجے گا کہ جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، خداوند اس کے ذریعہ آسمان و زمین کی برکات جاری کرے گا ۔پس آسمان بارش برسائے گا اور زمین زراعت و نباتات پیدا کرے گی ۔وحشی اور درندے حیوانات پر امن ہوجائیں گے۔وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی وہ خاندانِ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں کو قتل کرے گا ،یہاں تک کہ جاہل کہیں گے اگر یہ محمد ۖ کی ذریت سے ہوتا تو یقینا رحم کرتا۔

 ہم  نے جو روایتذکرکی ،اس میں امام جعفر صادقعلیہ السلام سے امام زمانہ علیہ السلام کے بارے میں بہترین تعبیر نقل ہوئی ہے۔اس روایت میں امام جعفر صادق  علیہ السلام  نے فرمایا: رجلا منی و انا منہ ایسا مرد کہ جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

 یہ ایک ایسی تعبیر ہے کہ جو امام جعفر صادقعلیہ السلام سے امام عصر کی تجلیل و تعریف کو بیان کرتی ہے۔یہ وہی تعبیر ہے کہ جو  رسول اکرم  ۖنے امام حسن  علیہ السلام اور امام حسین  علیہ السلام کے بارے میں فرمائی۔

 اس روایت میں موجود دیگر نکات یہ ہیں:

١۔ زمینی و آسمانی برکات کا نازل ہونا۔

٢۔ بارانِ رحمت کا برسنا۔

٣۔ زراعت و نباتات کی پیداوار میں اضافہ کہ جو زراعت اور اقتصاد کی ترقی کا باعث ہے۔

٤۔ وحشی حیوانات سے درندگی کا ختم ہوجانا۔

٥۔ دنیا کا عدل و انصاف سے سرشار ہونا۔

٦۔ روایت کے آخر میں  امام صادق علیہ السلام  کا یہ ارشاد ،و یقتل حتی یقول الجاھل،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مخالفین میں سے اعتراض کرنے والے موجود ہوں گے۔کیونکہ وہ کہیں گے کہ اگر یہ محمد ۖ کی نسل و ذریّت سے ہوتے تو حتماً رحم کرتے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت رسول خداۖ اور ان کے رحیم ہونے کے معتقد ہوں گے۔لیکن امام زمانہعلیہ السلام کی امامت کے قائل نہیں ہوںگے۔اسی وجہ سے وہ امام  زمانہعلیہ السلام پر اعتراض کریں گے۔یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ ان میں قتل و غارترونما ہوگا۔

اب اصل مطلب کی طرف آتے ہیں اور حیوانات کے رام ہونے کی بحث کوجاری رکھتے  ہیں کہ جس کے بارے میں خاندانِ عصمت و طہارت علیھم السلام کی روایات میں تصریح ہوئی ہے۔

 روایات کی بناء پر درندے حیوانات میں ایسی تبدیلی آئے گی کہ وہ گوشت خوری کو چھوڑ کر چارہ کھانے و الے جانور بن جائیں گے۔

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ درندوں سے درندگی اور خونریزی کی صفت سلب  ہوجائے گی اور وہ چارہ کھاکر اپنی غذائی ضروریات کو پورا کریں گے۔

  حضرت امام حسن مجتبی  علیہ السلام فرماتے ہیں:

 '' تصلح فی ملکہ السباح '' ([3])

حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت میں درندے ایک دوسرے کے ساتھ صلح و امن سے رہیں گے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''اصطلحت السباع و البھائم '' ([4])

درندے اور چارپائے آرام اور صلح سے رہیں گے۔

یہ چیزیں ایسے افراد کے لئے دیکھنا مشکل ہوگا کہ جنہوں نے اپنے دلوں پر مہر لگا دی ہو اور وہ  موجود ہ اشیاء سے بڑھ کر کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتے ۔لیکن جو آنے والی دنیا اور دنیا کے آئندہ  حالات اور مسائل کے بارے میں گہری نظر رکھتے ہوں،ان کے لئے یہ مسائل دیکھنا آسان ہے ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں  کہ زمین و زمان میں رونما ہونے والے عجیب واقعات و تبدیلی ،کرہ زمین کے موجودات پر اچھے اثرات چھوڑیں  گے اور تمام  موجودات کوکامیابی و کامرانی کی طرف لے جائیں گے۔

اس حقیقت پر توجہ کرنے کے بعد اب یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ انسان تقویت ِ ارادہ  اور یقین ِ محکم کے ذریعہ حتی حیوانات کو بھی  اپنا مطیع و فرمانبردار بنا لے؟

جس طرح شیخ بہائی اور ان جیسے افراد کی با قدرت نگاہ تانبے کو سونے میں تبدیل کردیتی تھی ، عقلوں کے تکامل کے دن انسان اپنے ارادے کو حیوانات پر القاء کرسکتاہے کہ جو عقلاً مشکل ہے۔

اگر ہم اس دن کو موجودہ دور کے لوگوں کی طرح مانیں تو پھر اس حقیقت و واقعیت کو قبول کرنا مشکل ہوگا۔لیکن جیسا کہ ہم نے کہا کہ وہ دن ،عقلوں کے تکامل، اور انسانی قدرت کے قوی ہونے کا دن ہے۔اس بیان پر توجہ کرنے سے ایسے واقعات کو قبول کرنا بہت سہل و آسان ہوجائے گا۔

 


[1]۔ التشریف باالمنن: ٢٩٩

[2]۔ الغیبة شیخ طوسی: ١١٥

[3]۔ بحارالاانوار:ج۵۲ص۲۸۰

[4]۔ بحارالاانوار:ج۵۲ص۳۱٦

 

 

    ملاحظہ کریں : 7459
    آج کے وزٹر : 45809
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131755903
    تمام وزٹر کی تعداد : 91382334