حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
روایت کی تحلیل

روایت کی تحلیل

روایت میں  قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پیغمبروںکے زمانے سے معصومین  علیہم السلام کے زمانے تک اور زمانہ ظہور سے پہلے تک علم و دانش یکساں تھا اور ان تمام زمانوں میں علم دو جزء سے  نہ بڑھ سکا اور نہ بڑھ سکے گا۔

کیونکہ امام صادق  علیہ السلام کے فرمان کے مطابق:

١۔ تمام پیغمبر جو علوم لائے وہ فقط دو حروف ہیں۔

٢۔ امام صادق  علیہ السلام کے زمانے تک لوگ علوم کے دو حرف کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔

٣۔ جب حضرت قائم  علیہ السلام قیام کریں گے تو پچیس دیگر حروف خارج کریں گے اور انہیں ان دو حرف کے ساتھ لوگوں میں پھیلائیں گے۔

امام صادق  علیہ السلام کے زمانے میںاور حضرت قائمعلیہ السلام کے ظہور سے پہلے تک علم و دانش، پیغمبروں کے زمانے کی بہ نسبت زیادہ وسیع ہوگا۔

اب روایت کے ظاہر سے قطع نظرکرتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ امام  کی مراد و مقصود کچھ اور تھی کہ جسے راوی نے واضح طور پر بیان نہیں کیا ہے۔

کیونکہ یہ واضح ہے کہ رسول اکرم  ۖ اور آئمہ اطہار علیھم السلام نے  ایسے علوم و معارف تعلیم  فرمائے ہیں کہ جو اس سے پہلے پیغمبروں میں سے کسی نے بیان نہیں کئے تھے۔

رسول اکرم  ۖ اور ان کے اوصیاء جو علوم معارف لے کر آئے،کیا یہ وہی علوم تھے کہ جنہیں گزشتہ انبیاء بھی لائے اور خاندانِ نبوت  علیھم السلام نے ان میں کسی قسم کا تحوّل ایجاد نہ کیا اور ان علوم میں کسی چیز کا اضافہ نہ کیا۔

اگر ایسا ہو تو پھر اسلام ،دیگر ادیان پر کیا برتری رکھتاہے؟

کوئی اس بات کا معتقد نہیں ہوسکتا کہ رسول اکرم ۖ کا علم و دانش گزشتہ نبیوں کا ہی علم ہے۔ اس بناء پریہ کہنا پڑے گا کہ اس روایت میں ایک ایسا نکتہ موجود ہے کہ جسے جاننے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت ہے۔

کیونکہ ظاہر روایت سے علمی ترقی میں ٹھہراؤکا استفادہ ہوتا ہے۔ یعنی پیغمبروں کے زمانے سے آئمہ اطہار علیھم السلام کے زمانے تک اور اس زمانے سے امام عصر علیہ السلام کے قیام سے پہلے تک ایک ہی حالت اور فضا قائم تھی اور امام زمانہ (عج) کے قیام سے یہ انجماد ٹوٹے گا۔

اگراب  پیغمبروں اور آئمہ اطہار علیھم السلام کے زمانے ( امام عصر کے قیام سے پہلے کے زمانے) میں علم کو ایک ہی طرح کا تصور کریں تو یقینا یہ بہت بڑا اور واضح اشتباہ ہے۔کیونکہ امام صادق  علیہ السلام  اور اسی طرح تمام آئمہ اطہار  علیھم السلام نے بہت سے ایسے علوم بیان فرمائے ہیں کہ جو گزشتہ پیغمبروں کی زبان سے نقل نہیںہوئے تھے۔

اس بناء پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یکساں ہونے کا مطلب علمی مقدار کے لحاظ یکساں ہونا ہے۔لیکن ہم یہ کہہ  سکتے ہیں کہ حصول علم کے لئے جن حواس کی ضرورت ہوتی ہے (یعنی دیکھنے اور سننے کی قوت) ان سے استفادہ کرنے میں اب بھی یکسانیت باقی ہے۔

 

    ملاحظہ کریں : 7338
    آج کے وزٹر : 43195
    کل کے وزٹر : 97153
    تمام وزٹر کی تعداد : 131750689
    تمام وزٹر کی تعداد : 91379721