حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
دین یعنی حیات اور صحیح ترقی یافتہ تمدّن

دین یعنی حیات اور صحیح ترقی یافتہ تمدّن

دنیا کے  بہت سے لوگ دین کے حیات بخش اور زندگی ساز منشور سے آگاہ نہیں ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ مکتب اہلبیت علیہم السلام نے معاشرے کے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھا ہے اور وہ لوگوں کی تمام ضروریات سے آگاہ ہے ۔ لہٰذا وہ دین کو صرف چند احکامات کا مجموعہ سمجھتے ہیں کہ جس کا تمدّن  اور صنعت کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔

ایسے بعض افراد خود ساختہ اور استعماری مکتب کے پیروکار ہوتے ہیں اور وہ تحریف شدہ ادیان کے تابع ہوتے ہیں۔لہذاوہ جس چیز کو قبول کریں ،اسے ہی دین سمجھتے ہیں۔

اگر مکتب اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں میں سے کسی گروہ کے ایسے اعتقادات ہوں تو یہ دین کے آئین اور اصولوں  کے بارے میںمکمل آگاہی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔

کیونکہ دین کا یہ معنی نہیں ہے کہ انسان ترقی اور صحیح تمدن اور صنعت سے دور ہو۔بلکہ تمدّن اور صنعتی ترقی دین کے زیرِ سایہ وجود میں آتی ہے ۔ پس دین اور دینداری صنعت و تمدّن کی نفی کا نام نہیں ہے۔بلکہ دین کا آئین ہی صنعتی ترقی اور تمدنی ترقی کا ذریعہ ہے۔

تاریخ میں نہ صرف آئندہ بلکہ ماضی میں بھی ایسے دور گزرے ہیں کہ جب بزرگ دینی تمدن نے لوگوں کو اپنے دامن میں جگہ دی۔اس وقت کے لوگ علم و صنعتی ترقی کے مالک تھے کہ ہمارا آج کا متمدّن دور جسے لانے سے عاجز ہے۔

یہ نہ صرف تاریخ کے صفحات میں بلکہ بعض امکانات میں ایسے ترقی یافتہ تمدن کے آثار موجود ہیں کہ اب بھی انسان جن کی عظمت کو درک کرنے سے قاصر ہے۔

ہم آپ کے لئے اس کا ایک نمونہ ذکر کرتے ہیں تاکہ یہ بخوبی واضح ہوسکے کہ دین کبھی بھی ترقی اور تمدن کا مخالف نہیں تھا۔بلکہ مذہبی حکومت خود صحیح تمدّن لانے کا عامل ہے۔

آپ حضرت سلیمان علیہ السلام  کی دینی حکومت کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

کیا حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو معبد بنایا تھا اور اب بھی اس کے ایسے آثار موجود ہیں کہ جنہیں اب تک پہچانا گیا۔کیا آپ اس سے آگاہ ہیں؟

اب اس بارے میں مزید جاننے کے لئے یہ واقعہ ملاحظہ کریں۔

تقریباً دو صدیاں پہلے ''بنیامین فرینکلن ''نے برق گیر ایجاد کیا۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

یہ امر بھی مسلم ہے کہ تقریباًتین ہزار سال پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کا معبد چوبیس بر ق گیر سے تیار کیا گیا تھا۔معبد کوہرگز شارٹ سرکٹ کاخطرہ نہیں تھا۔ ''فرانسوا آراگو ''نے اٹھارویں صدی میں اس بارے میں یوں وضاحت کی۔

معبد کی چھت کو انتہائی ظرافت سے تعمیر کیا گیا تھا،جسے ضخیم ورق سے ڈھانپا گیا تھا اور پوری چھت کو فولاد سے تیار کیا گیا تھا۔لوگ کہتے ہیںکہ چھت کی تیاری میں ان سب چیزوں کا استعمال صرف اس وجہ سے تھا کہ اس پر پرندے نہ بیٹھیں۔

معبد کے سامنے ایک حوض تھا کہ جو ہمیشہ پانی سے لبریز ہوتا۔اب ہمارے پاس ایسے شواہد و قرائن موجود ہیں کہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ برق گیر کسی ہدایت کرنے والی کی ہدایت کا نتیجہ ہیں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہم اب تک ایسے مسائل سے بہرہ مند نہیں ہوسکتے۔

اسی طرح معبد بیت المقدس کو بھی گزشتہ صدیوں کا کامل نمونہ قرار دے سکتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے تھا اور اب بھی اسی طرح باقی ہے۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام  اور ان کی آرٹیٹکٹ برق گیر کے راز سے آگاہ تھے۔ لیکن انہوں نے یہ راز دوسروں کو کیوں نہیں بتایا؟کسی سے اس بارے میں بات کیوں نہیں کی؟

اب تحقیق و جستجو کرنے والے دانشور کہ جنہوں نے وادی علم میں قدم رکھے ہیں ۔ جو بہت سے مجہولات کو معلومات میں تبدیل کرتے ہیں، اب ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کو سلجھائیں اور اس کا صحیح جواب معلوم کریں۔([1])

جیسا کہ آپ نے غور کیا کہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ہم اب تک ایسے امکانات اور وسائل میں سے کسی ایک سے مستفیض نہیں  ہو سکے۔

یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں علمی اور صنعتی ترقی کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔یہ اس بات کی  دلیل ہے کہ دین اورالہٰی حکومت صنعت اور ٹیکنالوجی

کی نفی نہیں کرتے۔بلکہ وہ خود انہیں وجود میں لاتے ہیں۔

اس کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں ایسی سہولتوں سے استفادہ ہوتا تھا ۔ لیکن آج کا متمدن معاشرہ اور ترقی یافتہ انسان ان سے مستفید ہونے سے عاجز ہے۔ قرآن کریم کی آیات اور اہلبیت علیھم السلام کی روایات میں ان کی تصریح ہوئی ہے۔

آج کی دنیا ترقی و پیشرفت اور علم و تمدن کے دعوں کے با وجود فزیکل وسائل کے بغیر ایک قلم کو دنیا کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک منتقل کرنے سے عاجز ہے۔لیکن حضرت سلیمان  علیہ السلام    کا شاگر ایک بار آنکھ جھپکنے کے ذریعہ بلقیس کے تخت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی قدرت رکھتا تھا ۔ اس نے یہ کام عملی طور پربھی انجام دیا۔

یہ واضح دلیل ہے کہ انسان کو عظیم قوت و طاقت کے حصول کے لئے مابعد مادّہ قدرت کی ضرورت ہے۔ جب تک اسے یہ قدرت حاصل نہ ہو تب تک وہ مادہ کی قید ہی میں رہے گا یعنی زمان ومکان کے تابع رہے گا ۔ مابعد مادہ قدرت کا حصول دین کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔

اس بناء پردین نہ صرف علم و دانش کی ترقی کے لئے  مانع نہیں ہے بلکہ دین خود ترقی و پیشرفت اور جدید ٹیکنالوجی اور صحیح صنعت وجود میں لانے کا اصلی سبب ہے۔

دنیا حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی الہٰی حکومت میں ایسی اہم ترقی کی شاہد ہوگی۔اس وقت انسان نہ صرف معنوی مسائل کی اوج پر ہوگا بلکہ جدیدترین ٹیکنالوجی و صنعت کا بھی مالک ہوگا۔

ہمیں  چاہیئے کہ ہم اپنے پورے وجود اور خلوص سے خداوند متعال سے اس بابرکت دن کی جلد آمد کی دعا کریں اور خود کو اس با عظمت زمانے  کے لئے تیار کریں۔ یہ بھی جان لیں  کہ انسان کی خلقت کا مقصد قتل غارت،ظلم و ستم، فساد اور ظالم و جابر حکومت  تشکیل دینا نہیں تھا ۔ بلکہ الہٰی حکومت کی تشکیل اور اسے استقرار و دوام دینے کے لئے کوشش کرنا  ہے۔لیکن اب تک ظالم اس راہ میں مانع  ہیں۔

ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ظہور کے تمام موانع برطرف کرکے جلد از جلد حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی حکومت قائم فرمائے اور ہمیں حضرت ولی عصرعلیہ السلام کے خادموں میں شمار فرمائے۔

 


[1]۔ تاریخ نا شناختہ بشر:١١
 

 

    ملاحظہ کریں : 7311
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 75593
    تمام وزٹر کی تعداد : 131815403
    تمام وزٹر کی تعداد : 91412118