حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کے لئے یہودیوں کی سازش

مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے

کے لئے یہودیوں کی سازش

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خلاف یہودیوں کی سازشیں صرف غیر مسلمانوں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روکنے کی حد تک نہیں تھیں بلکہ جہاں تک ہو سکتا تھا وہ مسلمانوں میںمختلف انداز سے  تخریب کاری اور سازشیں کرتے تھے تا کہ فتنہ و فساد اور افراتفری پیدا کرکے مسلمانوں کو کمزور کر سکیں۔

یہودیوں نے مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا اور وہ اب بھی اپنی راہ و روش کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ان میں سے ایک راہ قومی تعصب سے استفادہ کرکے قبائلی جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔

اوس اور خزرج عرب کے دو بہت ہی مشہور قبیلے ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودیوں کی سازش کی وجہ سے کئی سالوں تک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ۔

کتاب’’تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی‘‘میں لکھتے ہیں:مدینہ میں داخل ہوتے وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک عربوں کے دو مشہور قبائل یعنی اوس اور خزرج کے درمیان اختلاف تھا۔اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے آنحضرت کے لئے ایسی دشمنی اور تفرقہ اندازی کو ختم کرنا ضروری تھا ۔  لہذا آپ نے پہلی فرصت میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارہ قائم کیا اور آپ کے اسی اقدام کی وجہ سے ان دو قبائل کے درمیان دیرینہ دشمنی ختم ہو گئی۔

اوس و خزرج میں اتفاق و اتحاد ہو جانے کی وجہ سے یہودی اقتصادی منافع اور اپنے دوسرے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے تھے،اس لئے انہوں نے اسلام کی ترقی کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور جدائی ڈالنے کی کوشش کی۔

یہودیوں نے اپنے اس مشہور قاعدہ’’تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘‘(Divide and rule)پر عمل کرتے ہوئے دو قبائل اوس اور خزرج میں اختلافات پیدا کئے تھے اور ان سے قدرت کو یکجا کرنے کا وسیلہ سلب کر لیا تھا۔ اقتصادی،سیاسی اور دوسرے مختلف شعبوں میں یہودیوں کی ترقی کا یہی راز تھا۔چونکہ اسلام کے آنے سے انہیں اپنے یہ منحوس منصوبے اور مذموم مقاصد خاک میں ملتے دکھائی دے رہے تھے اس لئے انہوں نے مختلف کاروائیاں کرنا شروع کیں تا کہ ان کے درمیان روابط ختم کرکے انہیں دوبارہ زمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹا دیں اور یوں تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اسلام کا راستہ روکا جا سکے۔اس مقصد کی تحت یہودی کوئی ایسا موقع تلاش کر رہے تھے کہ جس سے  اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں اور اس اہم امر کے لئے اپنی سازش پر عمل کریں۔

ایک دن شاس بن قیس(جو ایک دولتمند یہودی تھا)ایک جگہ سے گزر رہا تھا ،جب اس نے دیکھا کہ وہاں اوس اور خزرج قبیلوں کے افراد بڑے  پیار و محبت سے اکٹھے ہوئے ہیں تو وہ اپنے حسد پر قابو نہ رکھ سکا اور اس نے اپنے منحوس منصوبے کو پورا کرنے  کے لئے اس موقع کو غنیمت جانا۔وہ کسی یہودی جوان کو اس مجمع میں بھیجنا چاہتا تھا جو ان کے درمیان زمانۂ جاہلیت کے درینہ بغض کو پھر سے تازہ کر دے اور اس اتحاد اور  دوستی کی فضا کو  تفرقہ و دشمنی سے آلودہ کر دے ۔[1]

اس جوان نے ان کے درمیان ماضی کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے کو یاد کیا اور ایک دوسرے کے بارے میں توہین آمیز اشعار پڑھ کر ان کی محبت و الفت  کی محفل کو لڑائی جھگڑے میں تبدیل کر دیاد، یہاں تک کہ ونوں قبیلوں نے ایک دوسرے پرتلواریں تان لیں اور پھر دوسرے افراد بھی ان کی مدد کو پہنچ آئے۔

جب یہ خبر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تک پہنچی تو آپ فوراً اس مجمع میں پہنچے اور فرمایا:خدا کی پناہ میں آجاؤ،کیا تم پھر سے جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہو اور جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟! خدا نے اسلام کی طرف تمہاری ہدایت کی،تمہیں عزیز بنایا،جاہلیت کے رشتہ کو ختم کر دیا، تمہیں کفر سے نجات دی اور تمہارے دلوں کو متحد کیا۔[2]

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی باتیں بے ہوش افراد کے منہ پر پڑنے والے ایک ایسے طمانچہ کی طرح تھیں ، جس کے  پڑتے ہی سب ہوش میں آگئے اور سب کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس یہودی جوان نے اس شیطانی کام کا منصوبہ پہلے ہی سے بنایا گیا تھا اور یہ دشمن کی مکارانہ سازش تھی ۔اس بناء پر انہوں نے ندامت و شرمندگی سے روتے ہوئے اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دیا اور استغفار کی اور پھر سے ایک دوسرے کی گردن میں باہیں  ڈال کر اور ایک دوسرے کو سینے سے لگا کر الفت و محبت اور  بھائی چارے کی تجدید کی۔[3]

خداوند کریم نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے:’’یٰاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوَااِن تُطِیْعُواْ فَرِیْقاً مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ یَرُدُّوکُم بَعْدَا ِیْمَانِکُمْ کَافِرِیْنَ‘‘۔ [4]

’’اے ایمان والو!اگر تم نے اہل کتاب کے اس گروہ کی اطاعت کر لی تو یہ تم کو ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹا دیں گے‘‘۔[5]

اس دنیا میں یہودیوں کا بنیادی ہدف دنیاوی  آرائش و خوبصورتی ہے اور وہ اسی میں دلچسپی رکھتے ہے۔ اور چونکہ ان کا آخری مقصد ہی دنیا ہے اس لئے وہ اس تک پہنچنے کے لئے تمام تر انسانی اقدار کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے  اور انسانوں  کے درمیان تفرقہ و نفاق پیدا کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں ،اور اس طرح سے یہودی اپنی مکاریوں اور سازشوں کا سلسلہ کو جاری رکھتے ہیں۔

اسی  لئے خداوند متعال نے بھی قرآن مجید میں دنیا کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے ان کی سرزنش   اور مذمت کی ہے اور فرمایا ہے:’’أُولَئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُاْ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُونَ‘‘۔[6]

’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخر ت کو دے کر دنیا خریدلی ہے اب نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی‘‘۔

پس جب ہم ابتدائے اسلام سے لے کر اب تک کی برائیوں اور تخریب کاریوں کی بنیاد کا تجزیہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہودی ہی ان تمام تر برائیوں کا اصل سبب تھے، یا پھر وہ اس میں حصہ دار تھے؛جیسا کہ ایک روسی دانشور نے لکھا ہے:

’’انسانیت کو برباد اور نیست و نابود  کرنے کے لئے یہودیوں کے بچھائے ہوئے جالوں سے دنیا کو شدید جنگی خطرات لاحق ہیں‘‘۔[7]

ابتداء سے ہی یہودیوں کی سیاست ایسی ہی رہی ہے کہ جو چیز بھی دنیاوی امور تک رسائی کی راہ میں حائل ہو،اسے کسی بھی طرح راستے سے ہٹا دیا جائے،چاہے اس کے لئے وحشیانہ ترین اور غیر انسانی کام ہی کیوں نہ کرنے پڑیں ؛ جیسے انسانوں کو برائیوں اور فحاشی کی طرف دھکیلنا،ان کے درمیان تفرقہ اور نفاق پیدا کرنا یا ضرورت پڑنے پر انہیں اجتماعی صورت میں قتل کر دینا۔اس رو سے یہ کہاجا سکتا ہے کہ روئے زمین پر اکثر برائیوں کی بنیادصرف یہودی ہی ہیں۔

یہودی علماء اس حد تک دنیا میں گھرے ہوئے تھے کہ  تورات میں تحریف کرنے  کے لئے رضاکارنہ طور پر سامنے آئے،اور وہ اس کام کے لئے یہودی حکمرانوں اور سلطانوں سے رشوت لیتے تھے ، ان کی خوشامد کرتے تھے اور اپنی دنیا کے حصول کے لئے دین یہود کے اصل  چہرے کو بگاڑتے تھے ، لوگوں کو صحیح راہ سے منحرف کرتے تھے اور رسول اکرمﷺکی صفات کو الگ انداز سے نقل کرتے تھے۔[8]

خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے:’’أَلَمْ تَرَا ِلَی الَّذِیْنَ أُوتُوا نَصِیْباً مِّنَ الْکِتَابِ یَشْتَرُونَ الضَّلاَلَةَ وَیُرِیْدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِیْلَ‘‘۔[9]

’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنہیں کتاب کا تھوڑا سا حصہ دے دیا گیا ہے اور وہ( اس سے اپنی اور دوسروں کی ہدایت کے لئے استفادہ کرنے کی بجائے اپنے لئے) گمراہی کا سودا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ سے بہک جا ؤ‘‘؟!

مرحوم طبرسی ذکر کرتے ہیں:یہودی علماء خود بھی بہت زیادہ مال خرچ کرتے  تھے تا کہ توریت میں یہودیوں کے لئے مادّی نقصانات کا باعث بننے والے مطالب میں تحریف کریں۔ حقییقت یہ ہے کہ یہودی علماء دنیاوی مال و دولت کی خاطر توریت کے یہ تحریف شدہ مطالب بیچتے تھے۔[10]

جب یہودیوں نے  پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اپنے ناجائز اقتصادی مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننتے ہوئے  دیکھا، اور مختلف حربوں سے بھی اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے تو انہوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کوقتل کرنے کا بھی منصوبہ بنایالیکن پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وحی کے ذریعہ ان کے منصوبے سے آگاہ ہو گئے اور اس جگہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس آ گئے جہاں وہ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔پس انہیں اس ناپسندیدہ کام کی وجہ سے تنبیہ کی گئی اور انہیں شہر بدر کر دیا گیا۔[11]

یہودیوں میں آج بھی دنیا کی محبت اور مال پرستی پائی جاتی ہے اور آج بھی ہم اس کے شاہد ہیں کہ وہ دنیاوی مقاصدکے حصول کے لئے ہر قسم کے غیر انسانی اور ناجائزفعل انجام دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ، چاہے یہ ان کے اپنے دین کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔اگراس دن وہ معاشرے میں فساد برپا کرتے تھے اور زیادہ سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے تھے تو آج بھی استعماری ممالک(جن میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہے)اہم کیمیائی و معدنی موادلوٹ رہے ہیں اور اس کے مقابلہ میں منشیات  اور بوسیدہ اسلحہ فروخت کرتے ہیں جو سالوں سے اسٹور میں بے کار پڑا ہوتاہے۔ [12]

...اگر اس دن یہودی دولت حاصل کرنے کے لئے اوس و خزرج میں تفرقہ ڈالتے تھے تا کہ طرفین میں سے غالب آنے والے کی حمایت کرکے  مغلوب کے مال پر قبضہ کیا  جا سکے تو آج اس راہ و روش کا نیا نمونہ سامنے آیا ہے اور وہ مختلف اقوام کے معدنی ذخائر اور وسائل تک رسائی کے لئے ہر قسم کی مکاری اور ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں کیونکہ یہودیوں کی نظر میں حق صرف طاقت کا نام ہے اور آزادی خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور صرف طاقت کے ذریعہ  ہی سیاست میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔[13]

یہودی؛ پروٹوکول اور اپنی کمیٹی کی گزارشات میں یوں اعتراف کرتے ہیں:ہم داخلی جنگوں کے ذریعہ اقوام کو کمزور کرتے ہیں،جو بعد میں سماجی جنگوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔جو ملک بھی ہماری مخالفت میں کھڑا ہو ہم اس ملک اور اس کے پڑوسی ملک کے درمیان جنگ چھیڑ دیتے ہیں تا کہ وہ ہم سے اسلحہ خریدیں ،اسلحہ کی افزائش اور جنگیں ہمارے فائدے میں ہیں۔کیونکہ ایک طرف سے ہم اقوام و ملل کے درمیان اپنے لئے احترام پیدا کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ہم نظم اور بے نظمی کا سبب ہیں اور دوسری طرح سے ہم ان پر اقتصادی قراردادوں اور مالی عہدو پیمان کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔[14]،[15]

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپ کے بعد کے زمانے میں یہودیوں کی تخریب کاری کا ایک اور سبب ان کے مقام و منصب کو درپیش خطرہ تھا۔اس بناء پر یہودیوں نے مختلف زمانوں میں حکومتوں کو اپنے قابومیں کرنے کی کوشش کی ہے۔ان موارد میں سے ایک ان کے ثقافتی اور مطبوعاتی تہوار ہیں جن کے ذریعہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتے ہیں اور اپنے مقام کو مستحکم کرتے ہیں۔اس بارے میں’’ آدولف ہٹلر ‘‘لکھتا ہے:

’’...یہودیوں کے علاوہ زہریلے افکار کو پھیلانے والاکوئی اور نہیں ہے، گفتگو کرنے کے لئے ان کا مخصوص لہجہ ہوتا ہے ، جو ذہنی و فکری مغالطہ پیدا کرنے میں بہت ماہر ہوتے ہیں،سیاسی بحث کے دوران وہ کئی دھوکا دینے والے کلمات جیسے ملت،آزادی،امن و امان کا قیام وغیرہ سے اپنے مقابل کو زیر کر دیتے ہیں،لیکن چونکہ یہ جنگ میں شکست کھانے والے ان افراد کی طرح  عاجز و بے بس ہوجاتے ہیں کہ جن کے پاس بھاگنے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔اس لئے یہ خود ہی کوئی حماقت اوربے وقوفی کرتےہیں ،اگر ان کا  کوئی منصوبہ ناکام ہو جاتا ہے تو وہ فوراً نئی منصوبہ بندی میں لگ جاتے ہیں ۔ان کے دلائل اتنے بے بنیاد ہیں کہ وہ خود بھی اس سے واقف ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس کا خیال نہیں کرتے ‘‘۔

’’...یہودی  ایک خودغرض،لاپرواہ ،اپنے ملک اور خاندان کی غدارمخلوق ہے۔اگر کسی روز کسی ملک کی زمام ان کے ہاتھوں میں آجائے اور وہ اسے اپنا مال سمجھنے لگیں تو وہ اس ملک کو دوسرے ملک میں تخریب کاری پھیلانے کا مرکز بنا  دیتے ہیں ‘‘۔[16]،[17]

 

۱۔ السیرة النبویة:ج۲ص۲۰۴،فروغ ابدیت:٩١-٤٦٨ .

۲۔’’یا معشر المسلمین؛اللّٰہ اللّٰہ أبدعوی الجاھلیة و أنا بین أظھرکم بعد أن ھداکم للاسلام،و أکرمکم بہ و قطع بہ عنکم أمر الجاھلیّة و استنقذکم من الکفر و ألّف بین قلوبکم‘‘۔منشور جاوید:٣٠٦-٢٩٩،السیرة النبویة: ج۲ص۲۰۵.

۳۔ منشور جاوید:٣٠٠،الصافی فی تفسیر القرآن:ج ١ص۳۳٦

[4]۔ سورۂ آل عمران،آیت:١٠٠ .

[5]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:٤٩ .

[6]۔ سورۂ بقرہ،آیت:٨٦.

[7]۔ اسرار سازمان مخفی ہود:٨ .

[8]۔ ابوالفتوح رازی:ج۴ص۳۹٦ .

[9]۔ سورۂ نساء،آیت:٤٤ .

[10]۔ مجمع البیان ف تفسیر القرآن:ج٣ص٩٦ .

[11]۔ السیرة النبویةج: ٣ص١٩٩-٢٠٠ .

[12]۔ چہرۂ یہود در قرآن:٦ .

[13]۔ چہرہ یہود در قرآن:٩-٨ .

[14]۔ اسرار سازمان مخفی یہود:٦٨-٦٧ .

[15]۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی:١١٠ .

۱۔ نبرد من:٤٥ .

۲۔ تحلیلی بر عملکرد یہود در عصر نبوی :١١٨ .

    ملاحظہ کریں : 3913
    آج کے وزٹر : 70981
    کل کے وزٹر : 103128
    تمام وزٹر کی تعداد : 132404789
    تمام وزٹر کی تعداد : 91810168