حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عيد فطر کے بارے میں المنجی ویب سائٹ کے کچھ مطلب

عيد فطر کے بارے میں المنجی ویب سائٹ کے کچھ مطلب

***********************************************

۱ شوال (حقیقی عید)؛ عيد فطر کے دن اميرالمؤمنين حضرت امام علی  عليه السلام

***********************************************

اس دن اميرالمؤمنين علی‏ عليه السلام نے خطبه دیا اور جیسا کہ مجموعه ورّام میں بیان ہوا ہے کہ یہ خطبہ «تنبيه الخواطر» کے نام سے مشہور ہے۔ نیز یہ «امالى صدوق : 61» میں بھی ذکر ہوا ہے اور ہم اسے امالى سے نقل کرتے ہیں۔

   اسناد کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

عن جعفر بن محمّد الصادق‏ عليه السلام، عن أبيه، عن جدّه ‏عليهم السلام قال: خطب ‏اميرالمؤمنين علىّ بن ابى طالب‏ عليه السلام يوم الفطر، فقال:

أيّها النّاس؛ إنّ يومكم هذا يوم يُثاب فيه المحسنون ويخسر فيه ‏المبطلون(1)، وهو أشبه يوم بيوم قيامتكم، فاذكروا بخروجكم من‏ منازلكم إلى مصلاّكم، خروجكم من الأجداث إلى ربّكم. واذكروا بوقوفكم في مصلاّكم، وقوفكم بين يدي ربّكم، واذكروا برجوعكم إلى‏ منازلكم؛ رجوعكم إلى منازلكم في الجنّة والنار، الخبر.

(اس روایت کے ماحصل کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ) حضرت كاشف الحقائق و الدقائق مولانا حضرت امام صادق ‏عليه السلام نے فرمایا کہ: میرے بابا نے فرمایا: كه دادا نے فرمایا: امير المؤمنين علی ‏عليه السلام نے عید الفطر کے دن خطبہ دیا اور لوگوں سے فرمایا:

ايّها الناس؛ آج عید فطر کا دن ہے؛ آج وہ دن ہے کہ جس دن میں نیک، متقی اور عمل خیر انجام دینے والے ثواب و اجر تک پہنچ جائیں گے اور فیوضات سے بہرہ مند ہوں گے اور انہیں اپنے پروردگار کی عنایات نصیب ہوں گی۔ لیکن بدکاروں اور ماہ مبارک رمضان کو نفسانی خواہشات، ہواء و ہوس اور اپنے پروردگار کی نافرمانی میں گذارنے والوں کو خسارہ اور نقصان ہو گا۔ اور یہ دن وہ دن ہے کہ جو قیامت کے دن سے بہت شباہت رکھتا ہے؛ وہ دن کہ جب خدا تمہیں حساب و کتاب کے لئے زندہ کرے گا۔ پس یاد کرو وہ دن کہ جس طرح اب تم اپنے گھروں سے عید کی نماز کے لئے نکلتے ہو اسی طرح اس دن خدا کے حکم سے خدا کے حضور اور محكمه الہيّه میں حاضر ہونے کے لئے قبروں سے نکلو گے۔ اور جب ‏مصلّى اور نماز کے مقام پر پہنچ جاؤ اور کھڑے ہو جاؤ تو وہ وقت یاد کرو کہ جب حساب و کتاب کے لئے محشر میں خالق اکبر کی بارگاہ میں کھڑے ہو گے۔ اور جب نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھروں کو واپس جاؤ تو وہ وقت یاد کرو کہ جب قیامت میں تم سے حساب لے لیا جائے اور تم جنت یا جہنم میں سے معین شدہ اپنی منازل کی طرف جاؤ گے اور جب نیک اور متقی لوگ جنت کی طرف اور بدکار جہنم کی طرف جائیں گے۔

   حقير کا یہ بیان ہے کہ: پس انسان کو نماز عيد کے بعد خوف و رجاء کے مابین ہونا چاہئے۔ اور خوف اس وجہ سے ہونا چاہئے کہ شاید اس کے اعمال جیسے نماز و روزہ وغیرہ بارگاہ الٰہی میں قبولیت کر درجہ تک نہ پہنچے ہوں، اور رجاء ( امید) اس وجہ سے کہ خدائے رؤوف کی رحمت اور لطف و کرم بہت وسیع ہے اور شاید اس پر بھی خدا کی نظر کرم ہو جائے ۔ لہذا خدا کی رحمت پر امید رکھتے ہوئے خوشحال بھی ہونا چاہئے اور خدا کی حمد و ثناء کرتے ہوئے خدائے منّان کی بارگاہ میں شکر کرنا چاہئے کہ خدا نے اس پر احسان کیا اور اسے روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔

   حافظ:

مزرع سبز فلك ديدم و داس مه نو

يادم از كشته خويش آمد و هنگام درو

گفتم: اى بخت بخسبيدى و خورشيد دميد

گفت با اين همه از سابقه نوميد مشو

   اور مؤمن کو اس وجہ سے مسرور اور خوشحال ہونا چاہئے کہ خدا نے اسے روزہ کی توفیق عطا فرمائی ہے؛ لہذا اس دن کو عيد کا نام دیا گیا ہے کیونکہ کہا گیا ہے کہ: «العيد هو اليوم الّذي يعود فيه الفرح والسرور». اور «شاخه طوبى: 15» میں کہتے ہیں:

حضرت اميرالمؤمنين علی عليه السلام نے ایک عید میں فرمایا:

إنّما هو عيد لمن قبل اللَّه صيامه وشكر قيامه وكلّ يوم لايعصى اللَّه فيه ‏فهو يوم عيد، انتهى.

  اور حیرت اس بات پر ہے کہ جس دن لوگوں نے خدائے عظیم کی سب سے بڑی معصیت کی اور اس دن کو عید قرار دیا وہ؛ وہ دن تھا کہ جب امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس کو شہداء کے سروں اور اسیران آل پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شام میں داخل کیا گیا۔

كانت مآتم بالعراق تعدّها

امويّة بالشام من أعيادها

  اور ایک دوسری وجہ سے بھی اس دن مؤمن کو ملول و مھزون ہونا چاہئے؛ کیونکہ حضرت بقيّة اللَّه ارواحنا له الفداء و عجّل اللَّه تعالى فرجه الشريف کا قلب مبارک ملول و محزون ہے؛ جیسا کہ كتاب شريف «من لا يحضرہ الفقیہ» اور «فروع كافى» میں ذکر ہوا ہے کہ:

حنّان بن سدير نے عبدالله بن سنان سے اور انہوں نے امام باقر عليه السلام سے روايت کی ہے کہ انحضرت نے فرمایا:

يا عبد اللَّه؛ ما من يوم عيد للمسلمين أضحى ولا فطر إلاّ وهو يجدّد لآل‏ محمّد فيه الحزن.

قال: قلت: ولِمَ؟

قال: لأنّهم يرون الحقّ في يد غيرهم.

اے عبد اللہ! مسلمانوں کے لئے عید کا کوئی ایسا دن نہیں ہے چاہے وہ عید الضحیٰ ہو یا عید الفطر، مگر یہ کہ اس میں آل محمد علیہم السلام کے غم تازہ ہوئے ہوں۔

راوى نے عرض کیا: کس طرح آپ کا غم اور حزن تازہ ہو جاتا ہے؟

فرمایا: کیونکہ وہ اپنا حق غاصبوں کے پاس دیکھتے ہیں۔

   یہ مسلّم ہے کہ اس خاندان اطہار علیہم السلام کا حزن جاہ و ریاست کی محبت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ امت اور رعیّت سے محبت و شفقت کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ انہیں حیران و سرگرداں اور گمراہی و ضلالت میں مبتلا دیکھتے ہیں اور وہ دشمنوں اور اشرار کے خوف فسے ان کی ہدایت نہیں کر سکتے۔

   پس مذکورہ حدیث کے مضمون کی رو سے آج جو کہ عید الفطر کا دن ہے، یہ امام زمانہ‏ حضرت بقيّة اللَّه عجّل اللَّه تعالى فرجه الشريف کے حزن کا دن ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ اہل ايمان اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے منتطرین حزن و غم کا اظہار کرتے ہوئے دعائے ندبہ پڑھیں اور جن اوقات میں دعائے ندبہ پڑھی جاتی ہے ان میں سے ایک عید الفطر کا دن بھی ہے۔ لہذا دعائے ندبہ پڑھتے ہوئے ندبہ و گریہ کریں اور خدا کی بارگاہ ربوبیّت میں یوسف زہراء امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کریں اور کہیں:

يا اباة الضيم ما هذا القعود

فالموالى اليوم سادتها العبيد

حقّكم ضاع وفي الأيدى الضّبا

أيضيع الحقّ والبيض شهود

اے ظلم کو قبول نہ کرنے والے! یہ ایک طرف بیٹھنا کس لئے؟ آج غلام، آقاؤں پر حکم چلا رہے ہیں۔

دھوکے بازوں کے ہاتھو آپ کا حق ضائع ہوا ہے! کیا سربراہ کی موجودگی میں حق ضائع ہونا چاہئے؟

   اور ہم یہ دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں : «أين معزّ الأولياء».

   اور منجملہ یہ معلوم ہے کہ شیعوں اور اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں، محبوں اور سادات کے لئے عید و مسرت کو دن وہ ہے کہ جب امام زمانہ ارواحنا فداہ کا ظہور ہو گا اور ہم امام عادل کے ساتھ نماز عید پڑھیں گے۔ اور حقیقتاً عید و سرور کا موقع وہی ہے کہ جب اہل ایمان کی آنکھیں اپنے مولا و آقا اور اپنے صاحب کے جمال سے منور ہوں گی، حقیقی عید وہ ہو گی کہ جب امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف تلوار اٹھا کر زمین سے ظلم و جور کے خار و خاشاک کا صفایا کر دیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں ، اور خلقِ خدا پر قوانین الٰہیہ کو نافذ کریں گے، اپنے دوستوں کو عزت اور اپنے دشمنوں کو ذلت تک پہنچائیں گے اور جب وہ ظالموں سے انتقام لیں گے؛ اور بالخصوص ان ظالموں سے انتقام لیں گے کہ جنہوں نے عاشورا کے دن آپ کے جدّ امجد حضرت امام حسین علیہ السلام کو گھیر کر آپ اور آپ کے یاران و انصار کو تشنہ لب قتل کیا۔ أين الطالب بدم المقتول بكربلاء.

فما العيش بعد السبط إلاّ منغّض

عليَّ ولو اوتيت ملك ابن داود

وما الدهر حتّى العيد الاّ ماتم

وهل ترك العاشور للنّاس من عيد

سبط پیغمبر کے بعد مجھ پر زندگی تلخ ہے، اگرچہ مجھے ابن داؤود کی بادشاہی بخش دیں۔

پورا زمانہ، حتی کہ عید بھی ماتم کے سوا نہیں ہے، اور کیا عاشورا نے لوگوں کے لئے کوئی عید باقی چھوڑی ہے۔ (2)


1) المسيئون، خ.

2) نفائح العلاّم فى سوانح الأيّام: 26/2.

 

منبع: معاويه ج ... ص ...

 

ملاحظہ کریں : 1132
آج کے وزٹر : 41110
کل کے وزٹر : 57650
تمام وزٹر کی تعداد : 130343680
تمام وزٹر کی تعداد : 90393403