حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
اميرالمؤمنين‏ حضرت امام علی عليه السلام کے لئے ردّ الشمس

۵ شوال امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے لئے رد الشمس کا ایک واقعہسنه 36 ہجری

********************************

اميرالمؤمنين‏ حضرت امام علی عليه السلام کے لئے ردّ الشمس

اس دن (پانچ ماه شوّال) سنہ 36 ہجری کو امير المؤمنين‏ حضرت علی عليه السلام نے نُخَيله ( جو آنحضرت کی لشكر گاه تھی) میں خطبه دیا اور پھر اپنے لشکر کے ساتھ معاويه عليه الہاويه سے جنگ کرنے کے لئے صفین کی طرف روانہ ہو گئے۔ (نصر بن مزاحم: 70 و سبط ابن جوزى‏: 50 و شرح شافيه: 81)

كتاب ناسخ میں نصر بن مزاحم سے استفاده کیا جاتا ہے کہ اس کے اگلے دن (یعنی چھ شوال) امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی دعا سے نماز عصر کی ادائیگی کے لئے آفتاب پلٹ آیا۔ اور جب آپ زمين بابل پر پہنچے تو آپ نے گھوڑے پر مهميز(1) ماری تا کہ وہ وہاں سے تیزی سے گذرے اور آپ نے لشکر سے فرمایا: اس نامبارک زمین سے جلدی سے گذرو، کیونکہ یہ زمین خسفی اور نامبارک  ہو گی ۔ یا فرمایا: یہ زمین خسفی اور نا مبارک ہے۔

لہذا امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام اپنے لشکر کے ساتھ اس مقام سے بہت تیزی کے ساتھ گذرے اور راستے میں آپ نے نماز کے لئے بھی قیام نہ فرمایا تا کہ آپ اس نامبارک اور شوم  زمین سے گذر جائیں۔ اور جب آپ کو نماز عصر کا وقت مہیا ہوا تو سورج غروب ہونے کے نزدیک تھا پس آنحضرت نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور خدا سے دعا کی تو فوراً سورج پلٹ گیا۔ پس آپ نے عصر کی نماز ادا کی اور پھر سورج غروب ہو گیا۔

حقير کا یہ بیان ہے کہ: ایک مرتبہ اور بھی آنحضرت کے لئے سورج پلٹا تھا اور وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زمانۂ حیات تھا۔ جیسا کہ ہم اسی مہینہ کی سترہویں تاریخ کی مناسبات میں اس مطلب کو بیان کریں گے۔ اور سید حمیری نے ( جیسا کہ سترہویں تاریخ کی مناسبات میں بیان ہو گا) کہا:

وعليه قد ردّت ببابل مرّة                اُخرى و ما ردّت لخلق معرب

اور کسی دیگر نے کہا ہے:

بحبّ عليّ غلا مَعشر                    و  قالوا  مقالاً  به  لايلى

فحم في مدحه انزلت                   وردّت له الشمس في بابل

اور شيخ مفيد رحمه الله نے کتاب ارشاد میں اس ردّ الشمس کو یوں نقل فرمایا ہے کہ جب امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے فرات سے بابل کی طرف عبور کیا تو کچھ لوگ اپنے سواریوں اور ساز و سامان کو دیکھنے میں مشغول ہو گئے اور آنحضرت کچھ لوگوں کے ساتھ عصر کی نماز بجا لائے اور جب دوسرے لوگ اپنے کام سے فارغ ہوئے تو سورج غروب ہو چکا تھا اور ان کی نماز قضا ہو چکی تھی جس کی وجہ سے وہ پریشان تھے۔ فتكلّموا في ذلك؛ انہوں نے اس بارے میں بات کی کہ جو على‏ عليه السلام کی مبارک سماعتوں تک پہنچی، آپ نے پروردگار سے دعا کی کہ سورج کو پلٹا دے تا کہ یہ وقت میں عصر کی نماز بجا لائیں۔ فأجابه اللَّه تعالى في ردّها، پس خدا نے آپ کی دعا کو مستجاب فرمایا۔ اور سب نے عصر کی نماز پڑھی اور جب انہوں نے نماز کا سلام پڑھا تو اس کے بعد سروج غروب ہو گیا۔ فسمع لها وجيب شديد؛ اور پھر سب نے ایک ایسی ہولناک آواز سنی کہ جس کی وجہ سے لوگ بہت خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے بہت زیادہ تسبيح و تہليل کی اور خدا کی بارگاہ میں استغفار کیا۔  اور انہوں نے خدا کی حمد و ثناء کی۔ و ساد خبر ذلك في الآفاق وانتشر ذكره في الناس.

اور ناسخ میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حالات زندگی پر مبنی جلد کے ص 720 میں کہا گیا ہے: سرزمین بابل میں صاعديّه کے مقام پر مسجد شمس معروف ہو گئی۔ (2)


1) ایک آہنی میخ کہ جو سواروں کے پاس ہوتی ہے اور یہ اصل میں مهمازہے۔ (غياث اللغات).

2) نفائح العلاّم فى سوانح الأيّام: 83/2.

 

منبع : معاويه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 1099
آج کے وزٹر : 15203
کل کے وزٹر : 57650
تمام وزٹر کی تعداد : 130291971
تمام وزٹر کی تعداد : 90341589