حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
حضرت علی عليه السلام کی شجاعت

حضرت علی عليه السلام کی شجاعت

**************************************

 ۱۷شوال؛ جنگ خندق میں امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کے دست مبارک سے عمرو بن عبدود کی ہلاکت ( سنہ ۵ ہجری)

**************************************

وہ ( امیر المؤمنین علی علیہ السلام) اس شمشير کے مالک تھے کہ (جہاں بھی حمله کرتے ) جسے ہمیشہ کامیابی حاصل ہوئی۔

وہ ایک ایسے دلیر اور دلاور تھے کہ کسی دلاور کی دلیری ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، ایسے شہہ سوار تھے کہ جنہوں نے سواروں سے سبقت کو چھین لیا ۔ جنگ میں مقابلہ کے علاوہ جا بجا نہ ہوتے اور جب ایک جگہ کھڑے ہو جاتے تو کوئی آپ کو ہٹا نہیں سکتا تھا۔ آپ نہ صرف کسی بھی سپاہ یا لشکر کے کسی ایک فرد سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ آپ کو کسی لشکر اور سپاہ کا بھی خوف نہیں تھا۔ کوئی جنگجو آپ کا سامنا نہیں کرتا تھا مگر یہ کہ وہ آپ کے سامنے اپنے گٹنے ٹیک دیتا، اگر کوئی آپ پر حملہ کرتا تو وہ اپنی جان سے جاتا۔ جب آپ کسی پر حملہ کرتے تو دشمن پر دوسرا  وار کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اگر آپ کا کوئی دشمن یا مخالف کسی معرکہ یا میدان جنگ میں آپ سے بچ  بھی جاتا تو وہ پوری زندگی اس بات پر افتخار کرتے ہوئے کہتا: میں وہ ہوں کہ جو علی بن ابى‏ طالب‏ عليہما السلام کے سامنے کھڑا ہوا اور زندہ بچ گیا!

روايت ہوئی ہے کہ ایک دن معاویہ خواب سے بیدار ہوا تو اس نے دیکھا کہ عبد اللَّه بن زبير اس کے سامنے کھڑا ہو کر مسکرا رہا ہے اور اس سے کہہ رہا ہے: اے مؤمنوں کے فرمانروا! اگر میں آپ کو قتل کرنا چاہتا تو یہ کام کر سکتا تھا!...

معاويه (اپنے غصے کو چھپا نہ سکا) نے کہا: ہمارے بعد شجاع ہو گئے ہو !!...

عبداللَّه نے فخر و مباہات کرتے ہوئے کہا: کون سی چیز میری شجاعت کا انکار کر سکتی ہے؟ حالانکہ میں وہ ہوں جو على بن ابى طالب‏ عليہما السلام کے مقابلہ میں کھڑا ہوا۔

اموی بادشاہ نے تمسخرانہ انداز میں کہا: یقیناً وہ تمہارے اور تمہارے باپ کے ساتھ بائیں ہاتھ سے جنگ کر رہے ہوں گے اور دائیں ہاتھ سے دوسروں کے ساتھ جنگ کر رہے ہوں گے۔!!

حتّى عرب  ( اگرچہ ان سے جنگ میں ان کے بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو گئیں) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی شمشیر سے اپنے سپاہیوں اور فرمانرواؤں کے قتل ہونے پر بھی افتخار کرتے تھے۔

عمرو بن عبدِوَد (عرب کا وہ پہلا شہہ زور اور شہسوار کہ جو جنگ خندق میں حضرت علىّ بن ابى طالب ‏عليہما السلام کے ہاتھوں قتل ہوا) کی بہن نے اپنے بھائی کے سوگ فخر و مباہات کرتے ہوئے یوں کہا:

لو كان قاتل عمرو غير قاتله                  بكيته أبداً ما دمت في الأبد

لكنّ قاتله من لايعاب به                     من كان يدعى قديماً بيضة البلد

اگر اس ( حضرت علی علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور عمرو کا قاتل ہوتا تو میں ہمیشہ اس پر روتی ۔

لیکن اس کا قاتل وہ ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں ہے اور اسے زمانۂ قدیم سے شہر کا بزرگ کہا جاتا ہے. (173)


173) خاستگاه خلافت: 524. 

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

 

ملاحظہ کریں : 1082
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 46089
تمام وزٹر کی تعداد : 130353632
تمام وزٹر کی تعداد : 90403361