حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
ایک بہت ہی عجیب واقعہ کا آغاز !

ایک بہت ہی عجیب واقعہ کا آغاز !

بیس سال پہلے تک میرے ہاتھ اور پاؤں سلامت تھے ، اور اسی عورت سے تازہ شادی کرنے کے بعد اسی گھر میں زندگی بسر  گزار رہا تھا۔ آدھی رات کے وقت گھر کے دروازے پر کسی عورت کے چیخنے چلانے کی آواز آئی ، اس کی آواز سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ کوئی اسے قتل کرنے کے ارادے سے مار رہا ہے ، میں کپڑے پہن کر گھرکے دروازے کی طرف بھاگا ، میں نے دیکھا کہ وہ عورت زمین پر گری ہوئی ہے اور اس کے  شگافتہ سر سے خون بہہ رہا ہے اور تین جوان لڑکے اسے مار رہے ہیں ، جو مجھے دیکھ کر وہاں سے بھاگ گئے ، میں تاریکی کی وجہ سے انہیں پہچان نہیں پایا کہ وہ کون تھے ، میں نے اس عورت کو ہسپتال پہنچا دیا  کہ شاید میں اسے موت سے نجات دے سکوں ، لیکن جب سے وہ زمین پر گری تھی ،وہ اسی وقت سے ہی بیہوش تھی ۔ میں نے گاڑی کی روشنی میں اسے پہچانے کی کوشش کی لیکن میں اسے پہچان نہ پایا ، بہرحال میرے لئے یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں تھا  کیونکہ میں نے انسان دوستی کی بنا پر یہ کام انجام دیا تھا ، لہذا میرے لئے اسے پہچاننا اہم نہیں تھا ۔ میں نے اسے ہسپتال پہنچا دیا ۔ ہسپتال کے عملے نے مجھ سے معمول کے مطابق پوچھ گچھ کی  ، میں نے ان سے سارا ماجرا بیان کیا  ، انہوں نے اسے قلمبند کر لیا  اور اس رپورٹ میں انہوں نے میرے گھر کا پتہ بھی لکھ لیا  اور میں ہسپتال سے باہر آ  گیا ۔

جب میں گھر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گھر کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، اور گھر میں موجود میری جوان بیوی کی کوئی خبر نہیں ہے  ، لیکن اس کا ایک جوتا وہاں پڑا ہوا ہے ۔ میں فوراً گاڑی میں سوار ہوا اور پولیس کے پاس جا کر سارا واقعہ بیان کیا ، وہ مجھے  پولیس اسٹیشن لے کر گیا اور وہاں اس نے اجازت لی تا کہ اسلحہ  لے کر میرے ساتھ آئے ۔ ہم دونوں گاڑی میں سوار ہوئے اور ہم آدھی رات کے وقت گلی کوچوں میں گھوم رہے تھے ۔

میں بے قرار ی  کے عالم میں رو رہا تھا اور اپنی بلند آواز سے بیوی کو نام سے پکار رہا تھا  ، یہاں تک کہ میں نے ایک بند گلی میں اپنی بیوی کے رونے اور آہ و فریاد کرنے کی آواز سنی ، جو مجھے مدد کے لئے پکار رہی تھی ۔

میں نے فوراً گاڑی کھڑی کی اور دیکھا کہ وہ زمین پر پڑی ہوئی ہے ، جب کہ  اس کے سر اور چہرے سے خون نکل رہا ہے ، میں نے اسے اٹھا کر گاڑی میں بٹھایا ، اس پولیس والے نے بھی میری  مدد کی  تا کہ ہم اسے ہسپتال پہنچا سکیں  ، راستے میں اچانک زور سے ایک بڑا سا پتھر میری گاڑی کے شیشے پر لگا اور میری گاڑی کا شیشہ ٹوٹ کر زمین پر گر  پڑا ۔

میں نے دوبارہ گاڑی کھڑی کی اور یہ دیکھنے کے لئے  گاڑی سے باہر  نکلا کہ کس نے پتھر مارا  ہے ، دوسرا پتھر میرے سر پرلگا  جس کی وجہ سے میں بھی زمین پر گر  گیا ۔

وہ پولیس والا بھی بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا تھا ، اس نے پاؤں گاڑی سے باہر نکالا ،لیکن وہ گاڑی سے اترنے کی جرأت  نہیں کر رہا تھا ، وہ اسلحہ نکال کر  اردگرد فائرنگ کر رہا تھا ۔

 فائرنگ کی  آواز سن کر لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے  اور سڑک پر لوگوں کا ہجوم ہو گیا ، کسی نے آواز دی کہ فی الحال زخمیوں کو ہسپتال پہنچائیں اور بعد میں دیکھیں کہ یہ کس کا   کام  ہے ۔

اسی جگہ کا ایک شخص گاڑی میں آ کر بیٹھا اور اس نے پولیس والے سے کہا کہ آپ تحقیق کریں کہ کیا آپ حملہ آوار کو تلاش کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ درحقیقت پولیس والا وہاں رکنے سے ڈر رہا تھا ، لہذا اس نے بہانہ بنایا کہ ممکن ہے دشمن ان کا پیچھا کر رہا ہو ، اس لئے مجھے ہسپتال تک ان کی حفاظت کے لئے آنا چاہئے ۔ بالآخر انہوں نے مجھے اور میری بیوی کو گاڑی کی پچھلی نشتوں پر بٹھا دیا  اور وہ دونوں گاڑی میں اگلی سیٹوں پر بیٹھ گئے اور انہوں نے ہم دونوں کو ہسپتال پہنچا دیا ۔

میرے زخم کچھ زیادہ گہرے نہیں تھے ، اس لئے مجھے چند ٹانکوں سے زیادہ کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن میری بیوی کے زخم کافی گہرے تھے اور اسے آپریشن کی ضرورت تھی  اور اس کے علاوہ  مار پیٹ کی وجہ سے اس کے جسم پر چوٹوں کے نشان تھے  اور اسے بہت زیادہ آرام کی ضرورت تھی ۔

ہسپتال کا سربراہ  کاغذ اور قلم تھامے میرے پاس رپورٹ لکھنے کے لئے آیا اور مجھ سے میرا نام پوچھا ۔ جب میں نے جواب دیا تو اس نے کہا: کیا آپ وہی شخص ہیں جو دو گھنٹے پہلے زخمی خاتون کو یہاں لائے تھے؟

میں نے کہا : جی ہاں !

اس نے کہا: معاف کیجئے  گا ، میں نے  آپ کو  پہچانا نہیں ، کیونکہ  آپ کا سر اور چہرہ خون آلود تھا ، اس لئے  آپ کا چہرہ واضح نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو پہچان نہیں سکا ۔ میں نے ہسپتال کے سربراہ سے پوچھا کہ اب وہ عورت کیسی ہے؟

اس نے کہا : اگر آپ اس سے ملنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ۔

 میں نے کہا: شکریہ اور ہم اس کے ساتھ گئے ۔ جب عورت کے شوہر نے مجھے دیکھا تو اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا: اگر آپ اسے یہاں لے کر نہ آتے تو جیسا کہ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا ہے ، میری بیوی مر چکی ہوتی۔ میں نے پہلے اپنی کہانی ہسپتال کے سربراہ اور  اس عورت کے شوہر سے بیان کی  ۔ پھر میں نے اس خاتون کے شوہر سے کہا کہ تمہاری بیوی کا کیا حال  ہے ، جسے ان تینوں مردوں نے اتنی بری طرح مارا پیٹا ہے  ، اور پھر اس کی مدد کرنے کی وجہ سے مجھے بھی اسی مصیبت کا سامنا  کرنا پڑا ہے ۔

اس خاتون کے شوہر نے کہا کہ میں آج رات دیر سے گھر آیا تھا اور  جب میں گھر میں داخل ہوا تو مجھے گھر میں میری بیوی دکھائی نہیں دی ، اور مجھے اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے ، یہاں تک کہ آدھا گھنٹہ پہلے اس شخص (ڈاکٹر) نے ہمارے گھر فون کیا اور مجھے یہاں آنے کے لئے کہا ، اور اب بھی میری بیوی کی ایسی حالت نہیں ہے کہ وہ مجھ سے اپنا واقعہ بیان کر سکے ۔

یہاں تک کہ یہ واقعہ لوگوں کے لئے کافی پیچیدہ ہو گیا تھا، اور صرف میری بیوی اور اس عورت کو ہی اس واقعہ کا علم تھا ، لیکن بدقسمتی سے ان دونوں کی ایسی حالت نہیں تھی کہ وہ  ہمیں اس واقعہ کے بارے میں کچھ بتا سکیں ۔  اس کے علاوہ ڈاکٹر  کا یہ کہنا تھا کہ  ان کے دماغ پر چوٹ آنے کی وجہ سے انہیں آرام کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس واقعہ کے بارے میں ان سے جتنی دیر سے بات کی جائے بہتر ہے ۔

بالآخر وہ رات بھی گزر گئی اور اس واقعہ پر پوری طرح  ابہام کے بادل چھائے رہے۔  اگلی صبح میری بیوی کی حالت کسی حد تک ٹھیک تھی، لہذا میں نے اس سے پوچھا کہ کل رات میرے جانے کے بعد کیا ہوا تھا کہ جو تم زخمی حالت میں اس بند گلی میں گری پڑی تھی ۔

اس نے کہا کہ جب آپ اس خاتون کو ہسپتال لے گئے ، میں ابھی دروازے پر کھڑی تھی کہ  اچانک سے تین نقاب پوش جوان نمودار ہوئے ، ان میں سے ایک نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ میں چیخ نہ پاؤں ، لیکن میں خود کو اس سے بچانے کی کوشش کر رہی  تھی کہ  ان میں سے ایک نے کسی چیز سے میرے سر پر   زوردار وار   کیا ، جس کی شدت سے  مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی اور میں بیہوش ہو گئی ۔ جب مجھے کچھ ہوش آیا تو آپ نے مجھے اس گلی میں پایا اور آپ مجھے ہسپتال لے آئے۔

اب بھی اس واقعہ سے ابہام کے بادل نہیں چھٹے تھے ۔ اس عورت کے شوہر نے بھی جب اپنی بیوی سے پوچھا کہ تم کیسے زخمی ہو  کر اس گلی میں پڑی ہوئی تھی تو اس نے کہا :

کسی نے دروازے کی گھنٹی بجائی،میں نے سوچا کہ آپ آئے ہوں گے ، لہذا میں نے دروازہ کھولا۔اچانک مجھ پر تین نقاب پوش افراد نے حملہ کیا۔انہوں نے پہلے میرے  منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور پھر مجھے گلی میں لے گئے۔مجھے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔اس کا ہاتھ میرے منہ سے ہٹا تو میں نے چیخ و پکار شروع کر دی  تو اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کسی چیز سے میرے سر  پر مارا ، میں بیہوش ہو گئی اور اب مجھے ہسپتال میں ہوش آیا ہے ۔

اسی دوران ہسپتال کا سربراہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا : کیا آپ کو پتہ چلا کہ کل رات کیا ہوا تھا ؟

میں نے کہا: نہیں ۔

اس نے کہا : آپ کے واقعہ کے بعد مزید پانچ خواتین کو اسی طرح زخمی کیا گیا ہے اور انہیں بھی اسی ہسپتال میں لایا گیا ہے  اور ہم نے پولیس کو ان واقعات سے آگاہ کر دیا ہے اور اب پولیس کا سربراہ جرائم کے علل و اسباب جانے کے ماہرین کے ساتھ ان واقعات کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ان زخمی عورتوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے یہ ساتھ یہ واقعہ کیسے پیش آیا تو ان سب نے ایک ہی بات بتائی کہ جو آپ کی بیوی نے آپ سے ذکر کی ہے ۔

بالآخر ان ساتوں زخمی عورتوں کے شوہر ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ گئے  لیکن تمام تر  سوچ و بچار کے بعد یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ہمیں کیوں اس آفت کا سامنا کرنا پڑا ؟

ان میں سے ایک نے کہا  کہ کچھ وجوہات کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ جنّات کا کام ہے ۔ دوسرے سب افراد ہنسنے لگے اور انہوں نے کہا : جنّات کو ہم سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے کہ ہم سات افرادکا ہی انتخاب کریں ؟

میں نے کہا : آپ اپنی وجوہات بیان کریں تا کہ ہم ان سے استفاد کریں !

اس نے کہا : دیکھیں ! ایک ہی طرح کا واقعہ ، ایک ہی طریقے سے حملہ ، کسی کو قتل نہ کرنا ،سب کا بیہوش ہو جانا ، اور اتنی جلدی سے سب کا ٹھیک ہو جانا ، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ انسان کا کام نہیں تھا ۔

میں نے کہا : یہ کوئی دلیل نہیں بنتی ، کیونکہ  اوّلاً یہ سب ایک طرح کے واقعات نہیں ہیں ، بلکہ میں ان میں تھوڑا  فرق  بھی ہے ۔ ثانیاً یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ جنّات کا عمل ایک ہی طرح کا ہوتا ہے اور انسان کا عمل منظم نہیں ہوتا ، اوردوسری طرف سے انہیں ہماری عورتوں سے کیا دشمنی ہے  جو وہ ہماری عورتوں کے کے ساتھ ایسا سلوک کریں! ایک نے کہا  ؛ میں یہ  چاہتا ہے کہ میں اور میری بیوی جلد از جلد اس سے باہر آئیں ۔ ان عورتوں میں سے دو کے شوہر بری طرح ڈر چکے تھے کہ جن میں سے ایک کی بیوی کو میں ہسپتال لایا تھا  ، انہوں نے بھی اس شخص کی موافقت کی ۔ لیکن میں نے کہا : پولیس کی مدد سے اس سے چھٹکارا پانا چاہئے  اور ان تین مجرموں کو کیفر کردارتک پہنچاناچاہئے ۔ اگر آپ بھی میری بات سے اتفاق  کریں تو بہتر ہے  تا کہ جلد از  جلد نتیجہ تک پہنچ سکیں ۔ لیکن ان میں سے اکثرایسا کرنے سے ہچکچا رہے تھے ، اور انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل تھا ، کیونکہ انہوں نے یہ دیکھا تھا کہ ایک زخمی کو ہسپتال پہنچانے کی وجہ سے انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا ، میری گاڑی  کا شیشہ توڑ دیا ، مجھے زخمی کر دیا  ، اس لئے ممکن تھا کہ اگر وہ بھی اس کام میں دخل اندازی کرتے تو  وہ انہیں بھی نقصان پہنچاتے ، لیکن میں نے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے کوشاں رہا اور  رات کو دس بجے  پولیس اسٹیشن سے اسلحہ لے کر انہی گلیوں میں گشت کر رہا تھا لیکن مجھے اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے ، بالآخر میں مأیوس ہونے والا تھا کہ مجھے خیال آیا  ، اس موضوع کے بارے میں یونیورسٹی میں نفسیات کے استاد پروفیسر  شیخ عبد المجید سے مشورہ کروں ۔ اگلے دن میں ان کے پاس گیا  اور ان سے یہ سارا ماجرا بیان کیا ۔ انہوں نے مجھ سے کہا : کیا زخمیوں کے ساتھ میری ملاقات  ہو سکتی ہے ؟

میں نے کہا: میں اس ملاقات کا انتظام کرتا ہوں ۔ ایک دو دن کے بعد میں نے ان خواتین کے شوہروں کو مدعو کیا  کہ جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا ۔وہ سب اپنی بیویوں کے ساتھ میرے گھر میں اسی کمرے میں جمع ہوئے تا کہ استاد ان سے سوالات پوچھ سکے ۔ وہ سب  اسی کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔

اس سے پہلے تک میں یونیورسٹی کے استاد کے بارے میں یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ معنوی اور روحانی علوم میں کس حد تک مہارت رکھتے ہیں ۔ جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا اور جن کا گھر مدینہ کے قریب تھا ، انہوں نے ترتیب سے ان سے کچھ سوالات پوچھے  اور اتفاق سے ان میں سب سے آخر میں میری بیوی تھی ۔ ان کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ آپ سب مجھے یہ بتائیں کہ جس دن یہ واقعہ پیش آیا ، اس دن صبح سے واقعہ پیش آنے تک آپ  سب نے کیا کیا تھا ؟  ان سب نے انہیں اس بارے میں بتایا ، وہ خواتین کی بتائی گئی باتوں کو لکھ رہے تھے ۔ ان کا دوسرا سوال یہ تھا  کہ آپ لوگوں کے ساتھ یہ واقعہ کیسے پیش آیا  اور اس میں کتنے افراد شامل تھے ؟ ان میں سے ہر ایک نے انہیں کچھ خصوصیات بتائیں  اور یونیورسٹی  کے استاد نے ان کی سب روداد بھی قلمبند کر لی ۔ ان کا تیسرا سوال یہ تھا کہ اس واقعہ کے بعد تم لوگوں کی حالت میں کیا تبدیلی آئی ہے ؟

ان میں سے ہر ایک نے اپنی حالت کے بارے میں بتایا اور انہوں نے پھر سب کچھ لکھنے  کے بعد کہا : میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے ، میں اس کا تین دن تک مطالعہ کرنے کے بعد آپ لوگوں کو اس کا نتیجہ بتاؤں گا ۔  مجھے نتیجہ تک پہنچنے کی جلدی تھی اور میں یہ  نہیں چاہتا تھا کہ یہ معاملہ اتنا طولانی ہو ۔  میں نے استاد سے کہا : اس طرح تو وہ لوگ بھاگ جائیں گے  اور ممکن ہے کہ زیادہ دیر ہو جانے کی وجہ سے ہم انہیں گرفتار نہ کر سکیں ۔

استاد نے مجھ سے کہا : تم لوگ اب بھی انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہو گے ، اور اگر اس سے زیادہ ان کا پیچھا کرنے کی  کوشش کرو گے تو تمہیں بھی  کسی ایسے حادثے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے   جو ناقابل تلافی ہو!

میں نے کہا : پھر آپ کے تین دن تک  کے مطالعہ کا کیا فائدہ ہے ؟ انہوں نے کہا : پہلی بات تو یہ کہ علمی لحاظ سے اس کی بہت اہمیت ہے ۔ دوسری بات یہ کہ  احتمالاً آپ نے کوئی ایسا کام کیا ہے کہ ارواح خبیثہ اور جنات جس کے مخالف ہیں ، جس کی وجہ سے انہوں نے آپ لوگوں کو تکلیف پہنچائی ہے  اور اگر آپ اسے جاری رکھیں گے تو آپ کو مزید مشکلات کا سامنا  کرنا پڑے گا ۔

میں اس وقت ان کی باتوں کو خرافات سمجھ رہا تھا ، لہذا ان کی باتوں کو ہنس کر تمسخرانہ انداز سے ٹال دیا  اور کہا : میں تو اپنے خون کے آخری قطرے تک اس بارے میں تحقیق کروں گا ، کیونکہ میں نے خود ان تین لڑکوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے  ، اس لئے میں یہ احتمال بھی نہیں دوں گا کہ وہ جنّات یا  اس طرح کی کوئی اور مخلوق ہیں ۔

استاد نے کہا : پھر جواب دینے کی  ضرورت نہیں ہے ؟ لیکن میں آپ کو یہ  نصیحت کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ اس کام کے پیچھے مت بھاگو ، ورنہ وہ تمہیں پریشان کریں گے ۔ جن دوستوں کی بیویوں کو اس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا ؛ ان سب نے متفقہ  طور پر کہا : لیکن ہمارا یہ تقاضا ہے کہ آپ ہمیں اس کا جواب دیں،یہاں تک کہ ان میں سے بھی ایک دو افراد ان کی باتوں کی تائید کر رہے تھے کہ یہ جنّات کا کا م ہو سکتا ہے ۔

بہر حال اس دن وہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی  اور میں بھی یونیورسٹی کے استاد کو اس واقعے کے بارے میں تحقیق کی دعوت دینے کی وجہ سے پشیمان تھا ، یہاں تک کہ تین دن گزر گئے ۔

یونیورسٹی کے استاد نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا : میں ایک دوسری نشست میں تم لوگوں کو اپنے مطالعے کا نتیجہ بتانے کے لئے تیار ہوں ، لیکن اس نشست میں وہ خواتین اور کوئی دوسرا اجنبی شخص نہ ہو ۔

میں نے کہا : بہت خوب!ایک مرتبہ پھر ہمارے گھر میں یہ  ملاقات ہوگی، لیکن چونکہ میری کچھ مصروفیات ہیں جن کی وجہ سے میں انہیں چند دنوں تک دعوت دوں گا تا کہ آپ ان سے بات کر سکیں۔

انہوں نے کہا : دیر ہو جائے گی ۔ اگر آپ آج ہی ملاقات کا اہتمام نہیں کریں گے تو میں خود ان سے رابطہ کر کے انہیں دعوت دوں گا اور ان سے یہ باتیں بیان کروں گا ۔

میں نے کہا : میرے پاس وقت نہیں ہے ، آپ خود یہ کام کر لیں ۔ اگرچہ میرے پاس وقت تھا لیکن میں ان کی خرافات پر مبنی  باتیں نہیں سننا چاہتا تھا ۔

جب وہ مجھ سے جدا ہو کر جانے لگے تو انہوں نے آہ  بھری اور مجھ سے کہا : اے نوجوان! تم اپنی نادانی اور ضد کی وجہ سے اپنے آپ کو لاچار کر رہے ےہو ۔ میں نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی ۔  انہوں نے بظاہر اسی دن اپنے گھر پر ملاقات کا  اہتمام کیا ، اور ایک دوست کے مطابق جس کی بیوی کو اس واقعے کا سامنا کرنا پرا تھا ، انہوں نے کہا  کہ وہ اس واقعہ سے پہلے ، اس واقعہ کے وقت اور اس واقعہ کے بعد ان خواتین کے کچھ حالات  کو مشترک سمجھتے ہیں ۔ اس واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے کے حالات یہ تھے :

ملاحظہ کریں : 163
آج کے وزٹر : 47812
کل کے وزٹر : 103882
تمام وزٹر کی تعداد : 132939273
تمام وزٹر کی تعداد : 92077808