حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(3) جنگ صفین میں عمار یاسر کا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض

(3)

جنگ صفین میں عمار یاسر کا خطاب

اور عمرو عاص پر اعتراض

قابل توجہ ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے سپہ سالار عمار یاسر نہ صرف اپنے کلام سے عراق کی فوج کی رہنمائی کرتے تھے بلکہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ شام کے لشکر اورعمرو عاص جیسے افراد سے سے خطاب کرتے تھے اور انہیں ان کے شرمناک انجام سے خبردار کرتے تھے۔

ابن ابی الحدید کھڑے ہوئے  نصر بن مزاحم منقری سےنقل کرتے ہیں:

جنگ صفین میں عمار یاس ر کھڑے ہوئے اور کہااے خدا کے بندو!میرے ساتھ مل کر اس قوم سے جنگ کرنے کے لئیکھڑے ہو جاؤ کا یہ خیال ہے کہ وہ ایسے ظالم شخص کے خون کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو خود ظلم و ستم کرتا تھا۔بیشک اسے اچھے لوگوں نے قتل کیا ہے کہ جو اسے ظلم و ستم اور تجاوز کرنے سے منع کرتے تھے اور اسے نیکی کا حکم دیتے تھے۔یہ لوگ ( اگر دنیا کے بدلے ان کا دین چلا بھی جائے تو یہ پھر بھی اس کو کوئی اہمیت نہ دیتے )ہم پر اعتراض کرتے ہیںاور کہتے ہیں:کیوں اسے قتل کیا؟

ہم نے کہا:دین میں پیدا کی گئی اس کی بدعتوں کی وجہ سے اسے قتل کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں:اس نے کوئی بدعت  ایجادنہیں کی تھی اور اس کی یہ وجہ ہے کہ اس نے ان کے ہاتھوں میں دنیا دے دی تھی ؛کہ جیسے یہ صرف کھاتے اور چرتے ہیں اور اگر پہاڑ بھی آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا کے بکھر جائیں تویہ اسے بھی کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔

خدا کی قسم!میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ خون کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اس قوم نے دنیا داری کا مزہ چکھا ہے اور اس کو شیریں پایا ہے۔جب کہ یہ جانتے ہیں کہ اگر صاحب حق ان کے اوپر حاکم ہو جائے تو جو یہ کھاتے اور چرتے ہیں ،اس کے اور ان کے درمیان رکاوٹ ایاد کر دے۔

اس قوم کا اسلام میں سے کو واسطہ نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے یہ حکومت کے حقدار ہوں۔انہوں  نے اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دیا ہے اور انہیں صرف سبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہ کہیں  ہمارا پیشوا مظلوم مارا گیا ہے تا کہ اس وجہ سے یہ جابر بادشاہ بن جائیں۔اور یہ ایسا دھوکہ ہے کہ جس کی پناہ میں یہ وہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ جہاں تم دیکھ رہے ہو۔اگر یہ دھوکہ و فریب نہ ہوتا تو کوئی ایک شخص بھی ان کی بیعت نہ کرتا۔

خدایا!اگر تو ہماری مدد کرے کہ تو ہمیشہ ہماری مدد کرتا ہے اور اگر تو انہیں حکومت دے تو بندوں میں ان کی پیدا کی گئی بدعتوں کی وجہ سے (آخرت)میں انہیں دردناک عذاب دے۔

پھر عمار چلے جب کہ آپ کے ساتھی بھی آپ کے ہمراہ تھے اور جب آپ عمرو عاص کے قریب پہنچے تو اس سے کہا:اے عمرو؛تم نے مصر(کی حکومت) کے لئے اپنا دین بیچ دیا؟بدبختی تمہارے ساتھ ہو کہ تم کب سے اسلام سے یہی لینے کے لئے پرتول رہے تھے۔

عمار یاسرنے پھر بیان کیا:پروردگارا؛تو خود جانتا ہے کہ کہ اگر میں یہ جان لوں کہ تیری رضا و خوشنودی اس میں ہے کہ میں اس دریا میں کود جاؤں،تو میں کود جاؤں گا۔

خدایا!توجانتا ہے کہ اگر میں یہ جان  لوں کہ تیری رضا اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار کی نوک اپنے پیٹ پر رکھ کے اس پر ٹیک لگاؤ تا کہ وہ میری پشتسے باہر نکل آئے ،تو میں ایسا ہی کروں گا۔

پروردگارا؛تو نے مجھے جو کچھ سکھایا اسی کے مطابق میں یہ جانتا ہوں کہ آج اس گروہ کے خلاف جہاد کرنے سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہے کہ جسے میں انجام دوں اور اگر میں یہ جان لوں کہ کوئی دوسرا کام تیری رضائیت کا باعث ہے تو میں وہی انجام دوں گا۔

نصر کہتے ہیں:عمروبن سعید نے شعبی سے میرے لئے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا ہے:

جناب عمار بن یاسرنے عبداللہ بن عمرو عاص کو آواز دی اور کہا:تم نے اپنا دین دنیا کے بدلے بیچ دیا اور وہ بھی خدا و اسلام کے دشمن(معاویہ)کے کہنے پر ،اور تم نے اپنے باپ کی  ہوا وہوس کے لئے تباہی اختیار کر لی ہے۔

اس نے کہا:ایسا نہیں ہے کہ میں شہید مظلوم عثمان کا خون کا تقاضا رہا ہوں!

عمار نے کہا:ہرگز ایسا نہیں ہے۔میں تمہارے بارے میں جو کچھ جانتا ہوں اس کی رو سے میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اپنے کسی بھی کام سے خدا کی رضائیت نہیں چاہتے اور جان لو کہ اگر آج تم قتل نہ بھی ہوئے تو کل مر جاؤ گے،اور دیکھ لو کہ جب خدا اپنے بندوں کو ان کے نیت کے اعتبار سے اجر دے گا تو تمہاری کیا نیت ہو گی؟١

جس طرح ہم یہ بیان کریں گے کہ کچھ سنی علماء جیسے سیوطی  نے اپنی کتابوںمیں وضاحت کی ہے کہ جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خداۖ کی پیشنگوئیاں متواتر احادیث میں سے ہیں۔ یعنی اس حدیث کے روای اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا اس روایت کو نقل کرنے میں جھوٹ پرا جماع اور ان کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں  نے جھوٹ بولا ہے،یہ حال ہے۔

قابل توجہ یہ ہے کہ یہ حدیث حتی کہ عمرو عاص بلکہ معاویہ سے بھی نقل ہوئی ہے!!اگرچہ انہوں نے خود یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس پر اعتنا نہیں کی اور اس کے برخلاف عمل کیا ہے!

اس حدیث سے آگاہ ہونے کے باوجودان کاحضرت رسول اکرمۖ کے فرمان کے بر خلاف عمل کرنا آنحضرت کی خلافت وجانشینی کے مسئلہ میں ان کی رسول خداۖ کی مخالفت کی دلیل ہے۔ 

 


1 .جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 131/3.

 

منبع: معاويه ج 1 ص 280

 

ملاحظہ کریں : 919
آج کے وزٹر : 21563
کل کے وزٹر : 58421
تمام وزٹر کی تعداد : 129631487
تمام وزٹر کی تعداد : 89995580