حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

کامیابیوں کی کلید اور محرومیوں کے اسباب

 یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے :کس طرح ہر دفعہ شیخ اجازت حاصل کر لیتے تھے اور امام  عجل اللہ فرجہ الشریف  کے شریعت کدہ میں زیارت جامعہ کے پڑھتے اور اجازت لے کر ساتھ بیت الشرف میں داخل ہوتے اور اپنے مہربان امام  عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ گفتگو کرتے ؟

 انہوں نے کس طرح یہ مرتبہ حاصل کیا تھا ؟نیز ان کے شاگردنے بھی امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے بیت الشرف کو دیکھا اس کے باوجودیہ افتخار نہیں رکھتے تھے چونکہ مرحوم شیخ   نے ان سے فر مادیا تھا کہ اس کے بعد تم اس بیت الشرف کو کبھی نہیں دیکھ پا ؤگے ۔

 یہ سوال اہم ہے اور اس کا اطمینان بخش  جواب دینا بھی ضروری  ہے ۔  افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس طرح کے سوالات کے لئے پہلے سے تیار شدہ جواب رکھتے ہیں اور مقابل کو فوراً جواب دیتے ہیں :خدا نے اسی طرح چا ہا ہو گا یا خدا ان میں سے (نعوذ باللہ ) بعض افراد کے ساتھ رشتہ داری  اور ان کے قوم و قبیلہ سے اپنا ئیت رکھتا ہے اور کسی قسم کا ارتباط پیدا کرنے  کے لئے دوسرے لوگوں کے طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے !

 اس قسم کے جوابات عموما ً ذمہ داریوں سیجان چھڑانے کا طریقہ ہیںلیکنیہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ نہ ہی جوابات قانع کنندہ ہیں اور نہ ہی ان سے کبھی کسی کو راہ  تکامل کی طرف راہنمائی کرسکتے ہیں ہم اس سوال کا جواب خاندان وحی علیھم السلام کے فرا مین کی روشنی  میں دیں گے ۔

خداوند عالم نے تمام انسانوں کو رو حانی کمال اور معنویت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی عمومی دعوت میں جو کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھائے اجر اور بدلہ عنایت کیاہے اسی طرح کہ جیسے میزبان اپنے مہمانوں کو دعوت کرتا ہے اور سب کی شرکت کی صورت میں خدمت اور پذیرائی کرتا ہے،نیزخداوند کریم نے بھی کمال و ارتقاء کا زمینہ ہر انسان کے لئے فرا ہم کیا ہے ۔اور اسی طرح ان کو  تکامل کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید میں صریحاً فر مایا ہے :

 (وَالَّذِیْنَ جٰاھَدُوْا فِیْنٰا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلُنٰا ) ([1])

''جو بھی ہماری راہ میں کو شش کرے ہم ضرور اسے اپنی راہ میں ہدایت کریں گے ''

 مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی دعوت کا جواب دیں اور روحانی کمال اور معنوی کارتقاء کی راہ میں  قدم بڑھائیں ۔لہٰذایہ بات مسلم ہے کہ انسان کے اندر ارتقاء کا مادہ موجود ہے اور وہ اس قدرت سے بہرہ مند بھی ہے، لیکن اس سے استفادہ نہیں کرتا جیسے تنگ نظر  اور چحوٹی سوچ کے مالک دولت مند افراد ہمیشہ بینک اکاؤنٹ پر کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس سے خوشحال رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھی اس مال و دولت سے استفادہ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ قوتوں اور توانائیوں سے استفادہ کیا جائے  تاکہ اپنے خسارے اور گھاٹے کا جبران ہو سکے اور عظیم مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے ۔بہت سارے لوگ روحانی اور معنوی کمال تک پہنچنے کی ذاتی طور پر بہت زیادہ آمادگی اور توانائی رکھتے ہیں چونکہ ان امور کے ساتھ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا اس قسم کی تمام تر توانائیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے یہاں تک کہ دنیا کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور ان توانائیوں کو اپنے ساتھ زیر خاک لے جاتے یتے ہیں جس طرح کہ گذشتہ زمانوں میں  دولت مند  افراد اپنے مال و دولت کو حفاظت کی خاطر زمین میں دفن کر دیتے تھے مگر بعد میں نہ ہی تو وہ خود اور نہ ہی ان کی اولاد  اس مال سے کسی قسم کا استفادہ کر سکیں ۔

یہ بات واضح ہو جائے کہ بعض افراد بہت زیادہ ،روحانی طاقت کے حامل تھے نیزان کی  درک کرنے کی قوت بھی فوق العادہ تھی انہوں نے کیسے یہ طاقت وقوت حاصل کی اس کا اندازہ بزرگ شیعہ عالم دین مرحوم حر ّ عاملی  کی اس گفتگو سے ہو تا ہے ۔آپ  فر ماتے ہیں :

 یہ بات واضح اور روشن ہے کہ دیکھنا اور سننا اور دیگر چیزیں جن کا سیدھا تعلق آنکھ،کان اور مربوط اعضاء سے ہے ۔آنکھ اور کان یہ دونوں چیزیں روح کے لئے وسیلہ ہیں ۔روح ان کے ذریعہ دیکھتی اور سنتی ہے ۔چونکہ روح کی طاقت قوی نہیں ہے اس لئے سماعت و بصارت اس جیسی خاص مادی چیزوں تک محدود ہے ۔

اسی وجہ سے فقط مادیات کو ہی دیکھ پاتی ہے اور روحانی مسائل کے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتی اگر انسان اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن انجام دے کر اپنی روحانی طاقت کو قوی کرلے تو مادیات اور طبیعیات سے مزید استفادہ کرنے کی استطاعت پیدا ہو جا ئے گی ۔پھر وہ اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کا مشاہدہ کرسکے گا جو دوسروں کو نہیں دکھائی دیتیں ۔ایسی صدائیں بآسانی سن سکے گا جسے دوسرے نہیں سن سکتے ۔

یہ قدرت اور غلبہ مختلف افراد میں مختلف طرح سے پا یا جاتا ہے ،اسی طرح کہ جس طرح ان کا تقرب بھی خدا کے نزدیک یکساں اور برابر نہیں ہے جو بھی عبادت ،جد وجہد اور کو شش کے ذریعہ سے خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اس کے روحانی اور معنوی حالات قوی تر اورمضبوط و مستحکم ہو تے جا تے ہیں ۔اور ایسے امور میں جن میں دوسرے لوگ آنکھ اور کان سے درک کرنے کی قوت نہیں رکھتے ان میں وہ قوی تر اور نہایت ہی مضبوط ہو تا ہے ۔  ([2])

 اس بحث سے روشن ہواکہ مرحوم شیخ انصاری  جیسے افراد کیسے یہ عظیم نعمت حاصل کر لیتے ہیں ۔ لیکن دوسرے افراد یہ قدرت اور توانائی نہیں رکھتے اور ان کی نظریں اس طرح کے امور دیکھنے سے عاجز ہیں ۔

صحیح معنوں میں حالت انتظار کو حاصل کرنا ہمارے لئے ایک تحفہ ہے ۔

دیدۂ باطن چو بینا می شود

آنچہ پنہان است ، پیدا می شود

امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے وہ منتظرین جنھوں نے انتظار کی راہ میں چل کر اپنے آپ کو سنوارا ہے ،وہ لوگ ہو ائے نفس سے فرارا، روح  کی پرواز اور ترقی کے ساتھ نفس کے تسلط اور کنٹرول سے رہائی حاصل کرتے ہیں تو نفس کی جذابیت اور کشش میں یہ طاقت نہیں کہ انہیں اپنی طرف کھینچ  لے کہ جس طرح فضا ئی راکٹ و غیرہ جب زمین کے مدار سے خارج ہو جاتا ہے تو پھر اس کو زمین کا کشش اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی ؛اگر ہم بھی تغیّر زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ہوا ئے نفسانی کے مدار سے خارج کر لیں تو نفس کی کشش و جذابیت اور شیطانی وسوسے ہمیں متأ ثر نہیں کر سکتے ۔

حضرت سلمان اور اہل بیت علیھم السلام کے دوسرے اصحاب اس طرح تھے اور وہ نفس کے دائرے سے خارج اور مادیات کی قید سے رہا ئی حاصل کر چکے تھے ۔اسی وجہ سے وہ افراد غیب کے عالم سے رابطہ بر قرار کئے ہو ئے تھے ۔جو ولایت اور قدرت و طاقت حضرت سلمان کے پاس تھی چونکہ انہوں نے نفس کے دائرے سے نکل کر اپنی ہوا ئے نفس کو تباہ و برباد کر رکھا تھا ۔اپنی خواہشات اور ارادوں پر حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ارادوں کو مسلط کر رکھا تھا اسی وجہ سے اپنی غیبی اور پوشیدہ قدرتوں اور طاقتوں سے بہرہ مند ہو کر ان سے عمل میں استفادہ کر تے تھے ۔

 


[1]۔ سورۂ عنکبوت ، آیت: ٦٩

[2] ۔ الفوائد الطوسیہ، تالیف مرحوم شیخ حر ّ عاملی: ٨٢

 

 

ملاحظہ کریں : 2331
آج کے وزٹر : 43387
کل کے وزٹر : 58421
تمام وزٹر کی تعداد : 129675107
تمام وزٹر کی تعداد : 90017404