حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(3) کيا ابوبكر سخی تھا؟

(3)

کيا ابوبكر سخی تھا؟

ہمارے شيخ ابوجعفر(خدا ان پر رحمت کرے) کہتے تھے: مجھے یہ بتائیں کہ ابوبكر نے کن مشکلات اور کس راہ میں یہ مال خرچ کیا۔جائز نہیں ہے کہ یہ موضوع مخفی رہے اور ذہنوں سے بھلا کر فرموشی کے سپرد کر دیا جائے.آپ کو اس کے چھ غلاموں کو آزاد کرنے سے زیادہ اور کچھ نہیں ملے گا کہ جن کی قیمت سو درہم بھی نہیں تھی ،پھر اس کے لئے کیسے عظیم سخی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟جب پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم مدينه کی طرف جا رہے تھے تو اس نے آپ کے لئے دو اونٹ خریدے اور ان دونوں کی قیمت بھی لی۔

اسے تمام محدثین نے نقل کیا ہے اور آپ خود بھی اسے روایت کرتے ہیں کہ ابوبكر مدينه میں قیام کے دوران بہت مالدار تھا اور آپ عائشہ سے بھی روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا:جب ابوبكر نے ہجرت كی تو اس کے پاس دس ہزار درہم تھے۔اور آپ کہتے ہیں کہ خدا نے اس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے: «اور خبردار تم میں کوئی شخص بھی جسے خدا نے فضل اور وسعت عطا کی ہے یہ قسم نہ کھا لے کہ قرابتداروں اور مسکینوں اور راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ کوئی سلوک نہ کرے گا»(38)

آپ کہتے ہیں کہ یہ آیت ابوبكر اور مسطح بن اثاثه کی شان میں نازل ہوئی ہے اور پھر آپ ابوبكر كے فقر کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے اپنا مال اس طرح سے خرچ کر دیا کہ اس کے پاس صرف ایک عبا باقی بچی کہ جسے وہ اوڑھتا تھا ؟

آپ روایت کرتے ہیں كه آسمانوں میں خداوند متعال کے کچھ ایسے فرشتے ہیں کہ جو صرف عبا اوڑھتے ہیں اور پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نےشب‏ معراج میں انہیں تو جناب جبرئيل سے ان کے بارے میں پوچھا تو جناب جبريل نے فرمایا:یہ وہ فرشتے ہیں کہ جو روئے زمین پر آپ کے دوست ابوبكر بن ابى قحافه سے متاثر ہوئے ہیں کہ جو بہت جلد اپنا سارا مال تم پر خرچ کر دے گا یہاں تک کہ اس کے پاس صرف ایک عبا باقی بچے گی۔

دوسری طرف سے آپ خود روایت کرتے ہیں کہ جب خدا نے آیۂ نجویٰ نازل کی اور فرمایا: «اے ایمان والو جب بھی رسول سے کوئی راز کی بات کرو تو پہلے صدقہ نکال دو کہ یہی تمہارے حق میں بہتری اور پاکیزگی کی بات ہے پھر اگر صدقہ ممکن نہ ہو تو خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے»(39) تو على بن ابى طالب علیہما السلام کے علاوہ کسی نے اس حکم پر عمل نہ کیا۔حلانکہ آپ خود ان کے فقر کا اقرار کرتے ہیں جب کہ ابوبكر نے مالدار اور پرآسائش ہونے کے باوجود صدقہ دے کر نجویٰ و ملاقات کرنے اور سوال پوچھنے سے گریز کیا اور خدا نے اس بارے میں اہل ایمان کی سرزنش کی اور فرمایا: «کیا تم اس بات سے ڈر گئے ہو کہ اپنی رازدارانہ باتوں سے پہلے خیرات نکال دو اب جب کہ تم نے ایسا نہیں کیا ہے اور خدا  نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے تو اب نماز قائم کرو اور زکات اداکرو اور اللہ و رسول کی اطاعت کروکہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے »(40)
اورخداوند متعال نےصدقه نہ دینے کو خطا شمار کیا ہے کہ خدا نے ان لوگوں کی توبہ قبول کی ہے کہ جنہوں نے صدقہ نہ دے کر معصیت کی ۔اس صورت حال کی رو سے ابوبكر کیسا سخی تھا جو چالیس ہزار درہم تو خرچ کرے لیکن صدقہ دے کر پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم راز و مناجات کرنے سے گریز کرے۔

البتہ اس کے واجب النفقہ افراد کے لئے جو کچھ کہا گیا ہے ، اس میں ابوبكر کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ ان کا نفقہ و اخراجات اس پر واجب تھے لیکن اس کے باوجود کچھ سیرت  نگار لکھتے ہیں کہ ابوبكر اپنے باپ پر بھی کوئی چیز خرچ نہیں کرتا تھا وہ اس جدعان کا مزدور تھا کہ جب وہ دسترخوان پر کھانے کے لئے بیٹھتا تو یہ وہاں سے مکھیاں بھگانے کا کام کرتا تھا۔ (41)

----------------------------------

38) )آيه 22، سوره نور.
39)
و40) آيات 12 اور 13 سوره مجادله، طبرى نے ص 14، ج 28 تفسير طبرى ،اور واحدى نے  ص 308، اسباب النزول اور فخر رازى نے اپنی تفسير میں مذکورہ آيات کے ذیل میں بیان کیا ہے اور کچھ دیگر افراد نے نقل کیا ہے کہ فقط على‏ عليه السلام نے اس پر عمل کیا ۔اس بارے میں مزید جاننے کے لئے استاد سید مرتضی حسینی فیروز آبادی کی کتاب فضائل الخمسہ کے ص 293، ج 1 کی طرف رجوع فرمائیں.
41)
)جلوه تاريخ در شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 368/5.

 

منبع: معاويه ج ... ص

ملاحظہ کریں : 1397
آج کے وزٹر : 21581
کل کے وزٹر : 89361
تمام وزٹر کی تعداد : 129370254
تمام وزٹر کی تعداد : 89864885