حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۳ ۔حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کو دفن کرتے وقت امام سجاد علیہ السلام کی آپ کے لئے عزاداری

۳ ۔حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کو دفن کرتے وقت امام سجاد علیہ السلام کی آپ  کے لئے عزاداری

 جب امام زین العابدین علیہ السلام کربلا میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ بنی اسد مقتولین  کے بے سر لاشوں کے پاس حیران و سرگرداں کھڑے ہیں  کہ ان بے سر لاشوں کو کیسے پہچانا جائے ۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام تمام شہداء کے نام بتا کر ان کی پہچان کروائی تو گریہ و فریاد کی صدائیں بلند ہوئیں اور بنی اسد کی عورتوں نے اپنے بال پریشان کئے اور اپنے چہرے پر ماتم کیا ۔ [1]

پھر امام زین العابدین علیہ السلام اپنے مظلوم پدر کے بدن مطہر کے پاس گئے اور اسے اسے اپنی آغوش میں رکھنے کے بعد بلند آواز سے گریہ کیا  اور پھر بدن مطہر کو قبر کے مقام پر لے کر گئے اور آپ نے وہاں سے کچھ خاک ہٹائی تو اچانک ایک تیار قبر نمودار ہوئی ۔ آپ نے جسم مطہر کے نیچے ہاتھ رکھ کر فرمایا :

بِسْمِ اللَّهِ وَفى سَبيلِ اللَّهِ وَعَلى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ما شاءَ اللَّهُ وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ الْعَلِيّ الْعَظِيمِ.

 امام سجاد علیہ السلام نے تنہا ہی انہیں قبر میں اتارا اور بنی اسد میں سے کسی نے  امام حسین علیہ السلام کی تدفین میں آپ کے شرکت نہیں کی  اور پھر آپ نے فرمایا : کیا کوئی میرے ساتھ ہے جو میری مدد کرے ؟

جب آپ نے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا بدن مطہر قبر میں رکھا تو آپ نے بریدہ رگوں  پر اپنے مبارک لب رکھے اور فرمایا :

طُوبى لِأَرْضٍ تَضَمَّنَتْ جَسَدَكَ الطّاهِرَ، أَمَّا اللَّيْلُ فَمُسَهَّدٌ وَالْحُزْنُ سَرْمَدٌ اَوْ يَخْتارُ اللَّهُ لِأَهْلِ بَيْتِكَ دَارَكَ الَّتي أَنْتَبِها مُقِيمٌ، وَعَلَيْكَ مِنِّي السَّلامُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكاتُهُ .

خوش قسمت ہے وہ زمین ؛ جس میں آپ کا پاکیزہ جسد ہے ، اور رات کے بارے میں بتاؤں تو اب میری آنکھوں میں نیند نہیں ہے ، اور اپنے غم و حزن کے بارے میں بتاؤں تو اس کی انتہا نہیں ہے ، یہاں تک کہ آپ کے اہل بیت بھی وہاں وارد ہو جائیں ، جہاں آپ مقیم ہیں۔میرے طرف سے آپ پر سلام ہو ، اے فرزند رسول خدا (صلی الہ علیہ و آلہ و سلم) ! اور آپ پر خدا کی رحمت اور بركات ہوں۔

 آپ نے امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر پر لکھا  :

 هذا قَبْرُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَليِّ بْنِ أَبِي طالِبٍ الَّذِى قَتَلُوهُ عَطْشاناً غَرِيباً.

یہ حسين بن على بن ابى طالب کی قبر ہے ، جنہیں تشنه اورغريب قتل کیا گیا ۔

پھر آپ اپنے چچا جناب عباس علیہ السلام کے پاس گئے ، آپ نے انہیں اس حال  میں دیکھا کہ جس سے آسمان کے ملائکہ خوفزدہ اور جنت کی حوریں گریہ کناں ہو گئیں ۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام نے جھک کر اپنے چچا کے کٹے ہوئے گلے کو بوسہ دیا اور فرمایا :  

عَلَى الدُّنْيا بَعْدَكَ الْعَفا يا قَمَرَ بَنِي هاشِمٍ وَعَلَيْكَ مِنِّي السَّلامُ مِنْ شَهيدٍ مُحْتَسِبٍ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.

اے قمر بنی ہاشم ! آپ کے بعد دنیا پر خاک  ہے، اے بااخلاص شہید ! میری طرف پر آپ پر سلام اور خدا کی رحمت و برکات آپ کے شامل حال ہوں ۔

آپ نے اپنے چچا حضرت عباس علیہ السلام کے لئے قبر بنائی اور اپنے والد گرامی کی طرح انہیں بھی  تنہا قبر میں اتارا اور فرمایا : کیا میرا کوئی یاور ہے ؟

پھر آپ نے بنی اسد کو حکم دیا کہ دو بڑے گڑے کھودے جائیں ، جن میں سے ایک میں بنی اسد اور دوسرے میں اصحاب کو دفن کیا جائے ۔ [2]

اس واقعہ میں بہت سے عجیب نکات پائے جاتے ہیں کہ جن پر توجہ کرنے سے  بہت سی چیزیں واضح ہوجاتی ہیں، اس بنا پر لازم ہے کہ اس طولانی واقعہ کو نقل کرنے کے بعد توضیح کے عنوان سے چند نکات بیان کئے جائیں :

۱ ۔ اس واقعہ سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کس قدر عظمت اور بلند مقام کے حامل ہیں ، کیونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو دفن کرنے کے بعد اور بنی ہاشم اور اصحاب کو دفن کرنے سے پہلے  امام سجاد علیہ السلام علقمہ کی طرف گئے تا کہ امام حسین علیہ السلام کو دفن کرنے کے بعد حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کو دفن کریں  اور پھر آپ امام حسین علیہ السلام کی طرف واپس آئے اور بنی اسد کو حکم دیا کہ دو گڑے کھودے جائیں کہ جن میں سے ایک میں بنی ہاشم اور دوسرے میں امام حسین  علیہ السلام  کے تمام اصحاب کو دفن کیا جائے ۔

۲ ۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کو دفن کرتے وقت امام سجاد علیہ السلام نے بنی اسد سے مدد طلب نہیں کی اور  یہ نہیں فرمایا کہ کیا کوئی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور حضرت عباس علیہ السلام کو دفن کرنے میں میری مدد کرے ، بلکہ فرمایا کہ  کیا کوئی میرا یاور ہے۔

۳ ۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو دفن کرتے وقت امام سجاد علیہ السلام نے اپنے لب امام حسین علیہ السلام کی بریدہ رگوں پر رکھا  اور اسی طرح حضرت عباس علیہ السلام کو دفن کرتے وقت آپ نے ان کی بریدہ رگوں پر اپنے لب رکھے اور انہیں بوسہ دیا ، لیکن دوسرے تمام شہداء کے بارے میں  یہ نہیں ملتا کہ انہیں دفن کرتے وقت بھی امام سجاد علیہ السلام نے  یہ عمل انجام دیا ہو ۔

 


[1] ۔  یہاں جن مطالب پر غور کرنا چاہئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی تدفین کے وقت بنی اسد کی خواتین نے آہ و نالہ کیا اور اپنے چہرے پر طمانچے مارے ۔ انہوں نے امام سجاد علیہ السلام کی موجودگی میں یہ عمل انجام دیا لیکن آپ نے بنی اسد کی خواتین کو نامحرموں کے سامنے آہ و نالہ  کرنے اور اپنے چہرے پر طمانچے مارنے سے منع نہیں کیا ۔ یہ بنی اسد کی عورتوں کے عمل کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ۔ اسی طرح سر اور سینہ کا ماتم کرنے کے بارے میں بھی روایات وارد ہوئی ہیں ، جو اس بات کی تائید کرتی ہیں ۔

[2] ۔ تاریخ امام حسین علیہ السلام : ۹ / ۲

    ملاحظہ کریں : 165
    آج کے وزٹر : 57289
    کل کے وزٹر : 120650
    تمام وزٹر کی تعداد : 137427091
    تمام وزٹر کی تعداد : 94567252