حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
۴ ۔ محرم الحرام کے ایّام میں امام رضا علیہ السلام کے گھر میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی مجلس عزا

۴ ۔ محرم الحرام کے ایّام میں امام رضا علیہ السلام کے گھر  میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی مجلس عزا

مرحوم علّامه مجلسى ؛ دعبل خزاعی سے نقل کرتے ہیں کہ ان کا بیان ہے :  میں ایسے ہی  ایّام میں اپنے  آقا و مولا حضرت علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا  تو میں نے دیکھا کہ آپ محزون اور غمزدہ بیٹھے ہوئے ہیں  اور آپ کے اصحاب آپ  کے اردگرد بیٹھے ہوئے  ہیں ۔ جب آپ  نے مجھے آتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے فرمایا :  اے دعبل ! خوش آمدید ۔ مرحبا ! جو اپنے ہاتھ اور زبان سے ہماری مدد کرے ! پھر آپ نے مجھے اپنے قریب بیٹھنے کے لئے جگہ دی اور مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور پھر مجھ سے فرمایا:اے دعبل! میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے اشعار پڑھو ! کیونکہ ہم اہل بیت کے لئے یہ غم و حزن کے ایّام ہیں اور ہمارے دشمنوں اور بالخصوص بنی امیہ کے لئے یہ خوشی کے ایّام ہیں ۔ اے دعبل ! جو کسی ایک شخص کو ہمارے مصائب پر رلائے تو اس کا اجر خدا کے ذمہ  ہے ۔ اے دعبل ! جس کی آنکھیں ہمارے مصائب پر گریہ کریں  اور وہ ہمارے دشمنوں کی جانب سے ہم پر ہونے والے مصائب پر روئے  تو خداوند اسے ہمارے ساتھ اور  ہمارے زمرہ میں محشور فرمائے گا ۔ اے دعبل ! جو شخص میرے جد حسین  کے مصائب پر گریہ کرے تو خدا یقیناً اس اس کے گناہ بخش دیتا  ہے ۔

پھر امام حسین علیہ السلام اٹھے اور آپ  نے ہمارے اور اپنے اہل حرم کے درمیان ایک پردہ لگا دیا اور اپنے اہل بیت کو پردے کے پیچھے بٹھا دیا تا کہ وہ اپنے جد حسین علیہ السلام پر گریہ کریں ۔ پھر آپ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا : اے دعبل ! حسین علیہ السلام کے لئے مرثیہ پڑھو !کیونکہ  تم جب تک زندہ ہو ،  تم ہمارے یاور اور ہمارے مداح ہو! پس جس قدر ہو سکے ہماری نصرت میں کوتاہی نہ کرو !

دعبل کہتے ہیں : میں رونے لگا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے  اور پھر میں نے یہ اشعار پڑھنے شروع کئے : [1]

اے فاطمہ ! اگر حسین کو خاک پر پڑے ہوئے تصور کرو کہ انہوں نے شط فرات کے کنارے  تشنہ جان دے دی ۔

اے فاطمہ ! اس صورت میں ان کے پاس اپنے چہرے پر طمانچے مارو گی اور آپ کے رخسار پر  آنکھوں سے اشک جاری ہوں گے !

اے فاطمہ ! اے نیکیوں کی دختر ! اٹھو اور  بیابان زمین پر پڑے ہوئے آسمان کے ستاروں پر ندبہ کر و!

کچھ قبریں کوفہ میں ہیں ، کچھ دوسری قبریں مدینہ میں ہیں اور کچھ اور قبریں سر زمین فخّ میں ہیں کہ ان پر میرا درود و سلام ہو!  کچھ قبریں سر زمین کربلا میں نہر کے کنارے واقع ہیں کہ ان کی عروسی کی جگہ شط فرات کا کنارہ ہے !

انہوں نے تشنہ لب بیابان میں جان دے دی ، اور اے کاش ! میں اپنی وفات کے زمانے سے پہلے ہوتا اور ان کے ساتھ جان دیتا ۔

میں خدا سے اپنے غم کی آگ کی شکایت کروں گا ، اور جب میں انہیں یاد کرتا ہوں تو مجھے عزا اور مصائب کی شدت کا جام پلایا جاتا ہے ۔

جس دن بزرگ بننا چاہیں ، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ، جبرئیل ، قرآن اور اس کے سورے لے کر آتے ہیں ، اور علی (علیہ السلام) کو صاحب مناقب و برتری  شمار کرتے ہیں ، اور فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کو بہترین بیٹی سمجھتے ہیں !

حمزہ اور عباس کو صاحب دین و تقویٰ شمار کرتے ہیں ، اور اس خاندان کے جعفر طیار کو بہشت کے پردوں پر دیکھتے ہیں ۔

وہ بنی امیہ میں سے ہند و حرب کو نحس شمار کرتے ہیں  اور سمیہ کو احمقوں اور پلید لوگوں میں شمار کرتے ہیں ۔

انہوں نے اہل بیت (علیہم السلام) کے آباء و اجداد کو ان کے حق سے محروم کیا ، اور انہوں نے اہل بیت (علیہم السلام) کی اولاد کو متفرق امور میں سے قرار دیا !

جب تک کوئی سوار خدا کے لئے حج کرے ، اور قُمری (نامی )پرندہ درختوں پر نوحہ سرائی کرے  تو میں ان کے لئے گریہ کروں گا ۔

پس اے آنکھو! ان پر گریہ کرو ، اور آنسو بہاؤ کہ آنسو بہانے اور زیادہ گریہ کرنے کا وقت آ پہنچا ہے !

زیاد کی بیٹیاں محلوں میں نامحرموں کی آنکھوں سے محفوظ ہیں ، اور آل رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہتک حرمت کی گئی ہے ۔

اور آل زیاد  بلند قلعوں میں ہیں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹیاں بیابانوں میں سرگرداں ہیں ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا گھر خالی ہے  اور آل زیاد اپنے حجروں میں ساکن ہیں ۔

 رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی آل کے جسم نحیف ہیں ، اور آل زیاد کی گردنیں موٹی ہو چکی ہیں ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی آل کے گلے سے خون جاری ہے ، اور آل زیادہ پردہ نشین ہیں ۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی آل کو اسیر کیا گیا ، حالانکہ آل زیاد کا مال امان میں ہے ۔

جب وہ انتقام لیں تو جن ہاتھوں کو انتقام لینے سے روکا گیا تھا  اور باندھ دیا گیا تھا ،  وہ اپنے ظالموں تک پہنچیں گے!

جب تک زمین پر سورج نور افکانی کرے اور مؤذن  جو خیر کا منادی ہے ، نماز کے لئے اذان کی ندا دے ، تو ان پر گریہ کروں گا ۔

جب تک سورج طلوع ہو اور اس کے غروب کا وقت ہو جائے تو میں صبح و شام ان پر گریہ کروں گا ۔ [2]

مرحوم علامہ مجلسی نے یہ مکمل قصیدہ امام رضا علیہ السلام کی تاریخ کے ابواب میں بیان کیا ہے ۔

اب جب کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے لئے معصومین علیہم السلام کی عزاداری کے کچھ نمونوں سے آشنا ہو چکے ہیں  تو اب ہم گریہ کی اہمیت کے بارے میں کچھ مطالب نقل کرتے ہیں :

 


[1] ۔ قال العلاّمة المجلسي: رَأَيْتُ فِي بَعْضِ مُؤَلَّفَاتِ الْمُتَأَخِّرِينَ أَنَّهُ قَالَ حَكَي دِعْبِلٌ‏ الْخُزَاعِيُّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَي سَيِّدِي وَ مَوْلَايَ عَلِيِّ بْنِ مُوسَي الرِّضَا عليه السلام فِي مِثْلِ‏ هَذِهِ الْأَيَّامِ فَرَأَيْتُهُ جَالِساً جِلْسَهَ الْحَزِينِ الْكَئِيبِ وَ أَصْحَابُهُ مِنْ حَوْلِهِ فَلَمَّا رَآنِي مُقْبِلًا قَالَ ‏لِي مَرْحَباً بِكَ يَا دِعْبِلُ مَرْحَباً بِنَاصِرِنَا بِيَدِهِ وَ لِسَانِهِ ثُمَّ إِنَّهُ وَسَّعَ  لِي فِي مَجْلِسِهِ وَ أَجْلَسَنِي ‏إِلَي جَانِبِهِ ثُمَّ قَالَ لِي يَا دِعْبِلُ أُحِبُّ أَنْ تُنْشِدَنِي شِعْراً فَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامَ حُزْنٍ كَانَتْ عَلَيْنَا أهْلَ الْبَيْتِ وَ أَيَّامَ سُرُورٍ كَانَتْ عَلَي أَعْدَائِنَا خُصُوصاً بَنِي أُمَيَّهَ يَا دِعْبِلُ مَنْ بَكَي وَ أَبْكَي‏عَلَي مُصَابِنَا وَ لَوْ وَاحِداً كَانَ أَجْرُهُ عَلَي اللَّهِ يَا دِعْبِلُ مَنْ ذَرَفَتْ عَيْنَاهُ عَلَي مُصَابِنَا وَ بَكَي ‏لِمَا أَصَابَنَا مِنْ أَعْدَائِنَا حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَنَا فِي زُمْرَتِنَا يَا دِعْبِلُ مَنْ بَكَي عَلَي مُصَابِ جَدِّيَ‏ الْحُسَيْنِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ الْبَتَّهَ ثُمَّ إِنَّهُ عليه السلام نَهَضَ وَ ضَرَبَ سِتْراً بَيْنَنَا وَ بَيْنَ حُرَمِهِ وَأَجْلَسَ أَهْلَ بَيْتِهِ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ لِيَبْكُوا عَلَي مُصَابِ جَدِّهِمُ الْحُسَيْنِ عليه السلام ثُمَّ الْتَفَتَ‏إِلَيَّ وَ قَالَ لِي يَا دِعْبِلُ ارْثِ الْحُسَيْنَ فَأَنْتَ نَاصِرُنَا وَ مَادِحُنَا مَا دُمْتَ حَيّاً فَلَا تُقَصِّرْ عَنْ نَصْرِنَا مَا اسْتَطَعْتَ قَالَ دِعْبِلٌ فَاسْتَعْبَرْتُ وَ سَالَتْ عَبْرَتِي وَ أَنْشَأْتُ أَقُولُ:

أَفَاطِمُ لَوْخِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلًا                                              وَ قَدْ مَاتَ عَطْشَاناً بِشَطِّ فُرَاتِ

 إِذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فَاطِمُ عِنْدَهُ                                             وَ أَجْرَيْتِ دَمْعَ الْعَيْنِ فِي الْوَجَنَاتِ

أَفَاطِمُ قُومِي يَا ابْنَهَ الْخَيْرِ وَ انْدُبِي                                      نُجُومَ سَمَاوَاتٍ بِأَرْضِ فَلَاتٍ

قُبُورٌ بِكُوفَانَ وَ أُخْرَي بِطَيْبَهَ                                                 وَ أُخْرَي بِفَخٍّ نَالَهَا صَلَوَاتِي

قُبُورٌ بِبَطْنِ النَّهْرِ مِنْ جَنْبِ كَرْبَلَا                                           مُعَرَّسُهُمْ فِيهَا بِشَطِّ فُرَاتٍ

توافوا [تُوُفُّوا] عِطَاشَا بِالْعَرَاءِ فَلَيْتَنِي                                    تُوُفِّيتُ فِيهِمْ قَبْلَ حِينِ وَفَاتِي....

[2] ۔ بحارالانوار: 21 /  257.دعبل کا قصیدۂ تائیہ بہت سی کتابوں میں مختلف روایات سے نقل ہوا ہے ۔ ر.ک: دعبل شاعر امام رضا علیہ السلام : ۲۳۰.

    ملاحظہ کریں : 153
    آج کے وزٹر : 98568
    کل کے وزٹر : 137658
    تمام وزٹر کی تعداد : 137269274
    تمام وزٹر کی تعداد : 94487882