حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں اسکندریہ کے مینار کی بربادی

یہودیوں کی سازش سے بنی امیہ کے ہاتھوں

اسکندریہ کے مینار کی بربادی

 

یہودی اسلام اور مسلمانوں کے اس حد تک دشمن تھے اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اتنا بغض بھرا ہوا تھا کہ وہ اسلام اور اسلام کے نام پر قائم کسی بھی حکومت سے راضی نہیں تھے۔ لیکن  اسلام کا نام استعمال کئے بغیروہ اسلام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔اس لئے انہوں نے بنی امیہ کی مدد کرنا شروع کی جن کے پاس اسلام اور مسلمانوں کا نام تھا تاکہ ان کے ذریعہ اصل اسلام کو کچل سکیں۔

اس بارے میں بنی امیہ بھی یہودیوں کے ہمدرد تھے چونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اسلام کے نام اور مسلمانوں سے استفادہ کرنا چاہئے لہذا انہوں نے ظاہری  طور پر اسلام قبول کیا اور ظاہراً  مسلمان ہو گئے اور خلافت کا لبادہ اوڑھ کرخدا ،پیغمبر ،کعبہ اور دین کے تمام مقدسات کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔

اموی خلیفہ اپنے باطنی خواہشات کو بخوبی جانتے تھے بلکہ وہ یہودیوں کی شیطانی مکاریوں اور ان کی سازشوں سے بھی باخبر تھے اور جانتے تھے کہ ان کی اسلام اور مسلمانوں سے درینہ دشمنی ہے، لیکن ان سب کے باوجود کچھ موارد میں انہوں نے یہودیوں سے اس طرح دھوکا کھایا کہ جس کی شرمندگی ہمیشہ کے لئے تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو گئی اور جس سے ان کی بے شرمی میں مزید اضافہ ہوا۔

ان کا ایک منصوبہ اسکندریہ کے مینار کو برباد کرنا تھاجو دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک تھا۔

بہت سے مفکر دنیاکے سات عجوبوں سے کم وبیش آشنا ہیں اوروہ جانتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق اسکندریہ کا مینار  اسکندر مقدونی نے بنایا تھا جو دنیا کی حیرت انگیز تعمیرات میں سے ایک ہے۔اس عجیب اور حیرت انگیز عمارت  اور اسے تباہ کرنے کے لئے یہودیوں کی سازششوں کو جاننے کے لئے ان مطالب پر غور کریں:

حیرت انگیز عمارتوں میں سے ایک اسکندریہ کا مینارہے  جوتراشے ہوئے پتھروں اور سیسہ سے بنایا گیا ہے ۔اس کے تین سو کمرے ہیں جن میں سے ہر ایک کمرے میں سے مینار کے اوپر جانے کا راستہ  ہے اور ان کمروں میں سے دریاکو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے سکندر مقدونی نے بنوایا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں:اسے مصر کی ملکہ’’دلوکا‘‘ نے  بنوایا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس مینار کے مشرقی کنارے میں لکھا ہوا ہے کہ طوفان نوح کے ایک ہزار دوسو سال بعدستاروں کے معائنہ کے لئے  مربیوش یونانی کی بیٹی کے حکم پر یہ مینار بنا گیا۔

کہتے ہیں:اس مینار کی لمبائی ہزار ذراع ہے اور اب اس کے اوپر کچھ مجسمے ہیں جن میں سے ایک مجسمہ ایک مرد کاہے جو اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے سورج  کی طرف اشارہ کر رہا ہے،چاہے وہ آسمان میں جس جگہ بھی ہو اورجس طرف سورج پلٹتا ہے وہ بھی اسی طرف پلٹ جاتا ہے۔

ایک دوسرا مجسمہ ہے جو سمندرکی طرف دیکھ رہا ہے اور جب دشمن اس شہر سے ایک میل کی دوری پر ہو وہ خوفناک آواز نکالتا ہے تا کہ شہر کے لوگوں کو دشمن کے آنے کی خبر ہو جائے۔

ایک اور مجسمہ بھی ہے جو رات میں ہر گھنٹے کے بعد  دلنشین آواز نکالتا ہے۔کہتے ہیں کہ اس مینار کے اوپر ایک آئینہ ہے جس کا رخ سمندر کی طرف ہے اور جس طرف سے بھی کشتیاں آئیں وہ رستے میں تین دن تک اس آئینہ میں دکھائی دیتی ہیں تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ وہ تاجر ہیں یا دشمن۔یہ مینارولید بن عبدالملک کے زمانے تک عروج پر تھا۔[1]

کتاب’’تحفةالدہر‘‘ میں اسکندر کو اس مینار کے بنانے والا قرار دیا گیا ہے اور لکھتے ہیں:اس مینار کو بنانے سے پہلے اس نے مختلف پتھروں کو پانچ سال تک پانی میں رکھا تا کہ اس سے یہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کون سا پتھر پانی کے مقابلہ میں زیادہ مقاومت کر سکتا ہے۔پانچ سال کے بعد پتہ چلا کہ آبگینہ(شیشہ)میں زیادہ استحکام و مقاومت ہے۔اس لئے اس نے حکم دیا کہ پانی میں مینار کی بنیادوں کو آبگینہ سے بنایا جائے۔

مشہور تاریخ نویس مسعودی نے یوں لکھا  ہے:

ولید بن عبدالملک کے زمانۂ خلافت میں روم کے بادشاہ نے اپنے ایک خاص ذہین اورفہیم شخص کو مہاجر کی شکل میں کچھ اشیاء کے ساتھ ایک اسلامی ملک کی حدود میں بھیجا۔وہ شخص ولید کے پاس آیا اور اس سے کہا:میں روم کے بادشاہ کے قریبی افراد میں سے تھاوہ مجھ سے ناراض ہوگیاہے اور اس نے مجھے قتل کرنے کا ارادہ کیاہے ۔میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ آیا اوراب میں اسلام کی طرف مائل ہو چکا ہوں۔وہ ولید کے ہاتھوں مسلمان ہو گیا اور اس کے نزدیکی افراد میں سے ہو گیا۔ اس نے روم  سے نکالے جانے والے ذخائر اور خزانوں کی بات کی ۔اس نے ان کی تفصیل اپنے پاس لکھی ہوئی تھی  اور اس نے ان میں سے کچھ چیزیں ولید کو پیش کیں جس سے ولید لالچ میں پڑ گیا۔

اس شخص نے ولید سے کہا:آپ کے ملک میں اموال،جواہر اورخزانے بہت زیادہ ہیں۔

ولید نے کہا:کہاں ہیں؟

اس نے کہا:اسکندریہ کے مینار کے نیچے خزانہ چھپایا گیا ہے ، کیونکہ جب اسکندر نے دنیا کے جواہرات اکٹھے کئے تو انہیں زمین کے نیچے رکھ دیا اور اس کے اوپر مینار بنا دیا۔

ولید نے لالچ میں آکر اس شخص کے ساتھ اسکندریہ کے مسمار کو برباد کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجا۔جب آدھے مینار کو مسمار کر دیا تو وہ مینار زمین پر گر گیاتو اسکندریہ کے لوگوں کا نالا بلند ہوا اور تب جاکروہ لوگ سمجھے کہ دشمن نے کس مکر و حیلہ سے کام لیا ہے۔جب وہ شخص بھی جان گیا کہ اس کی مکاری کو لوگ بھانپ گئے ہیں تو وہ رات کی تاریکی میں فرار ہو گیا اور ہمارے زمانے  یعنی  سنہ ١٤٣٢ھ میں بھی وہ مینار اسی حالت میں باقی ہے۔[2]

دو وجوہات کی بناء پر ہم نے یہ واقعہ بیان کیا ہے:

ایک یہ کہ اسکندریہ کے مینار کی وضاحت اور یہ کہ  گذشتہ زمانے میں دنیا میں کیسے کیسے عجوبے پائے جاتے تھے۔اور اس سے بھی اہم دوسرا نکتہ مسلمانوں کے دشمنوں کی بیداری،ہوشیاری اور ان کے مکرو فریب کو بیان کرنا تھا ۔یہودی دشمن،جاہل عیسائی اور تمام مسالک و عقائد نے پوری تاریخ میں اسلام کی شان و شوکت ،جاہ و جلال اور مسلمانوں کی معنوی و باطنی رفعت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس کے مقابلہ میں مسلمان ہمیشہ بے حس رہے اور انہوں نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔لہذا آپ عزیزجوانوں کو میری یہی تاکید اور سفارش ہے کہ دشمن کی طرف سے جو کچھ آئے اسے ہمیشہ اچھا نہ سمجھو بلکہ اس کے ظاہر کو دیکھ کر اس کے باطن کو سمجھنے کی کوشش کرو۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ خدمت کے نام پر کیسی کیسی خیانتیں کی جاتی ہیں،ترقی و تمدن کے نام پر کیسا کیسا نقصان پہنچاتے ہیں،نئی ایجادات  کے نام پر کیسے کیسے اصل گوہر ہم سے لے لئے جاتے ہیں اورکیسے ہمارا ظاہری و باطنی اور مادی و معنوی  سرمایہ لوٹ لیا جاتا ہے؟

میرے عزیزو!جان لو کہ دشمن دوست نہیں بن سکتا ،کفر کبھی اسلام کے ساتھ یکجا نہیں ہو سکتا۔ یہودی، عیسائی،کفار اور منافقین ہماری مدد کے لئےکبھی بھی حاضر نہیں ہوں گے ۔وہ تمہیں جتنا دینا چاہتے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ تم سے لے چکے ہیں۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اوراتنا بھی دھوکا نہ کھائیں اور سادہ لوح نہ بنے رہیں۔ ہم ان کے دیئے گئے نقصانات اور ان کی خیانتوں سے واقف تھے اور واقف ہیں لیکن پھر بھی وہ جو کچھ لاتے ہیں ہم باہیں پھیلا کر ان کے افکار و رفتار کا استقبال کرتے ہیں۔

خدا کو اس کی عزت و جلال کا واسطہ دیتے ہیں کہ پروردگارا! جلد از جلد اسلام اور مسلمانوں کی عزت کو پہنچا دے:’’این معزّ الأولیاء و مذّل الأعداء؟‘‘۔[3]

 


۱ ۔ ترجمۂ نخیة الدھر فی عجائب البرّ و البحر:٥٣ .

۱۔ مروج الذہب:٤١٧١ .

۱ ۔ جامعہ در حرم:٣٦٤

    ملاحظہ کریں : 2236
    آج کے وزٹر : 13873
    کل کے وزٹر : 93074
    تمام وزٹر کی تعداد : 136344663
    تمام وزٹر کی تعداد : 94023221