حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
دوسرے مذاہب میں زیارت

دوسرے مذاہب میں زیارت

یہ نکتہ جاننا بھی ضروری ہے کہ زیارت ایک فطری امر ہے ، جو صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب اور فرقوں کے پیروکار بھی اپنے بزرگوں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں، اس بنا پر زیارت کی مخالفت کرنے والے لوگ درحقیقت تمام ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کی مخالفت کرتے ہیں۔

زیارت تمام ادیان و مذاہب میں موجود ہے، البتہ زیارت کرنے کیفیت ، مقامات  اور جن اشخاص کی زیارت کی جاتی ہے ، ان میں فرق پایا جاتا ہے، لیکن مقدس مقامات پر حاضری  دینا اور وہاں پر ایک خاص قسم کا احترام کرنا عام اور آفاقی ہے۔

مصاحب کے  انسائیکلوپیڈیا میں لکھتے ہیں:

اس مضمون میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بابل کے قدیم لوگوں میں رائج  زیارت اور ان کی رسومات کے بارے میں بحث کرتے ہیں ۔ نیز وہ اس میں زیارت کے سفر کے آداب اور زیارت گاہ کے اندر کی رسومات کی وضاحت کرتے ہیں ، جو اخلاقی اور روحانی پہلوؤں سے خالی نہیں ہے۔

زیارت کے باب میں ہم آشور اور بابل کے اقوام کی زیارت کے ایّام اور ان کے مقدس مقامات کی زیارت کے واقعات پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ دو ہزار سال قبل مسیح ’’اُور ، نی پور، سوسا اور آنسا‘‘ نامی شہروں میں بھی بڑی زیارات تھیں ۔

جب بدھ مت میں اس مسئلے کا تجزیہ اور مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس سے  ان کے احترام اور تقدس کا پہلو واضح ہو جاتا ہے۔کیونکہ بدھ مت میں مقدس مقامات ، گوتھم بدھ اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی زیارت میں ان کے  خالق ہونے کے لحاظ سے عبادت کا کوئی پہلو نہیں پایا جاتا ہے ، بلکہ صرف ان کے احترام کے طور پر اور انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے عنوان سے  ان کی زیارت کی جاتی ہے ۔چین، تبت، سیلان، ہندوستان، برما اور کوریا کی بڑی بڑی زیارت گاہیں زیارت کی عمومیت اور وسعت  کی نشاندہی کرتی ہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ایسے دریا بھی ہیں کہ لوگ جن کے احترام کے قائل ہیں ، اور وہ ان سے  راز و نیاز کرتے ہیں ، جیسےدریائے  گنگا  وجمنا اور برہما پترا۔

اب آپ یہ نہ سوچیں کہ زیارت کی روایت کا تعلق صرف بعض ایشیائی ممالک یا   کچھ خاص قبائل سے ہے؟ نہیں ! بلکہ عیسائیت کے اہم مذہبی آداب و رسومات میں سے ایک مقدس مقامات کی زیارت ہے۔ فلسطین ؛ عیسائیوں کی پہلی زیارتگاہ تھا۔ قرون وسطی میں یورپ سے بہت بڑے قافلے بیت المقدس[1] کی زیارت کے لئے آتے تھے  اور بہت ہی کٹھن اور دشوار سفر طے کرتے تھے تا کہ کسی طرح یروشلم پہنچ جائیں ۔

اگر ہم عیسائی دنیا میں مقبروں اور مقدس مقامات کی زیارت کے فلسفہ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ دور حاضر میں نام نہاد مہذب دنیا نہ صرف خود کو زیارت سے بے نیاز نہیں سمجھتی ، بلکہ وہ عبادت اور مقدس قبور کی زیارت کو دنیاوی مشکلات سے نجات پانے کے لئے ضروری سمجھتی  ہے۔  یعنی جہاں انسان نئی تہذیب کی مشکلات اور تکالیف سے آزاد ہو کر کسی سے راز و نیاز کرے اور اس سے اپنا درد دل بیان کرے ، کیونکہ ریا  کے بغیر خالص اور پاکیزہ دوست سے ہی  آپ اپنے دل کے راز  بیان کرتے  ہیں۔

اس حقیقت اور فطری ضرورت کو سمجھنے کی وجہ سے برطانیہ، فرانس اور اٹلی جیسے ممالک میں بڑی بڑی زیارتگاہیں موجود ہیں ، جن میں سے ہر ایک  اپنےمخصوص نام سے مشہور ہے۔

بیت المقدس کے بعد روم میں عیسائیوں کی سب سے بڑی زیارتگاہیں ہیں ، جہاں ہر سال لاتعداد زائرین زیارت کی غرض سے جاتے ہیں  ، جہاں وہ  منتیں مانگتے ہیں  اور خاص ذکر اور  دعاؤں کے ذریعہ زیارت کرتے ہیں ۔  

زیارت کی سب سے پیچیدہ شکل ہندو مذہب میں پائی جاتی ہے   ، جس میں ان کی خاص رسومات اور تقاریب ہوتی ہیں ۔ ہندو اپنی مذہبی زیارت کے لئے زیارت سے پہلے لازمی طور پر غسل کرتے ہیں  اور پاک و پاکیزہ  ہو کر زیارت کے لئے جاتے ہیں ،  زائرین کے پاس پھول ہوتے ہیں، جنہیں وہ زیارتگاہ میں بطور ہدیہ لے کر جاتے ہیں  اور وہاں ان پھولوں کو نچھاور کرکے زیارتگاہ کی فضا کو معطر کرتے ہیں۔ زیارتگاہ کے مختلف حصوں کی شفاف آئینوں کے ذریعہ تزئین و آرائش کی جاتی ہے کہ جن میں شمع کا عکس دلفریب منظر پیش کر رہا ہوتا ہے  ۔ زیارتگاہ کی فضا اگربتی اور عطر کی خوشبو سے معطر ہوتی ہے ۔ زائر کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ زیارت کے وقت سر ڈھانپ کر جائے یا آسان لفظوں میں یہ کہ وہ حجاب کے ساتھ زیارتگاہ میں جائے ۔ ہر عمر کی خواتین کے لئے اس کی پابندی کرنا ضروری ہے  لیکن مرد انہی پھولوں کی مالا گلے میں ڈال کر یا ان کا گلدستہ بناکر زیاتگاہ میں جا سکتے ہیں ۔ [2]

 


[1] ۔ بيت المقدس يا قدس يا یروشلم؛ (عبرى = امن کا شهرسلامتى) یہ اسرائيل اور اردن ہاشمى کی سرحد پر واقع ہے ، یہودی اور عیسائی ادب میں اسے اکثر صیہون کہا جاتا ہے۔ بیت المقدس ؛ مسلمانوں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک مقدس ہے اور یہ تینوں مذاہب کی زيارتگاه ہے،مسلمانوں کی زیارتگاہ  قُبة الصخره اور مسجد الاقصى ہے ، یہودیوں کے نزدیک مقدس ہے  اور عیسائی قبر مقدس کے کلیسا کا احترام کرتے ہیں ۔ یروشلم میں ایسی بہت سی زیارتگاہیں اور کلیسا ہیں ، جن میں سے ہر ایک کتاب قدس یا قدسیین میں ذکر ہونے واقعات کی یادگار ہیں ۔ یروشلم کم از کم ۱۵ویں صدی قبل مسیح سے متعلق ہے ...۔( دائرۃ المعارف مصاحب سے مأخوذ) .

[2] ۔ شوق ديدار: 29، از دائرة المعارف مصاحب.

    ملاحظہ کریں : 206
    آج کے وزٹر : 6783
    کل کے وزٹر : 120650
    تمام وزٹر کی تعداد : 137326960
    تمام وزٹر کی تعداد : 94516747